• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ سورج پوری طرح نکلا ہوا ہے مگر آج تین نومبرکا سیاہ دن ہے ۔آج پاکستانی قوم کے محبوب لیڈر پرقاتلانہ حملہ ہوا تھا۔گولیاں اس کی ٹانگ میں لگی تھیں۔آج اس تکلیف دہ دن کی دوسری سالگرہ ہےمگرحملہ آوروں کو سزا دینے اور سازش کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کیلئے کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں ۔انصاف گاہوں سے بھی تین نومبر کا گہرا تعلق ہے ۔اسی دن پاکستان کے بہت سے جج صاحبان نے پی سی او حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔یہی انکار پھر پرویز مشرف کی حکومت کے زوال کا سبب بنا تھا۔مگر ہم اس دن کو یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اسی دن پرویزمشرف نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ آئین معطل کر دیا ۔میڈیا پر بھی پابندی عائد کر دی۔ سپریم کورٹ اور تمام صوبائی ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو بشمول چیف جسٹس حضرات کے گھروں میں نظربند کر دیا گیا۔

سو فیض احمد فیض کے نقشِ قدم پر چلتے آج کے نام میں بھی کچھ انتساب کرتا ہوں۔یعنی آج اگر فیض ہوتے تو کہتے ۔

آج کے نام اور آج کے لہلہاتے اندھیروں کے نام

جن کو سورج کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں

جن کے نزدیک کوئی کرن خوبصورت نہیں

گرم بہتے ہوئے خون کے پھڑپھڑاتے پھریروں کے نام

جو لگائے گئے ہیں حکومت کی اونچی عمارات پر

شاہراہوں پہ بوٹوں کی چاپوں کےخاموش پھیروں کے نام

صبح ِجمہوریت کے بھیانک سویروں کے نام

جن سے شبنم بھی کالی ہوئی

جن سے بادِ صباچمنیوں کا دھواں بن گئی

جن سے سکھ کی صبوحی میں دکھ گھل گئے

آج کے نام اور آج کے در د افزوں سیہ غم کے نام

جس نے بچوں سے روٹی تلک چھین لی

جس نے پھولوں سے ان کی مہک چھین لی

چاند تاروں سے جس نے چمک چھین لی

جس نے چڑیوں سے ان کی چہک چھین لی

قیدخانوں میں ہوتے ہوئے شورِ ماتم کے نام

جس میں بہتے ہوئے آنسوئوں کا تلاطم ہے بس

جس میں برسوں سے آزادی اپنی کہیں گم ہے بس

ان اسیروں کے نام

جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر

جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں

جل جل کے انجم نما ہوگئے ۔

درد کے دیوتا ہو گئے

آج کے نام...اور...آج کے غم کے نام

آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا

زرد پتوں کا بن

زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے

درد کی انجمن جو مرا دیس ہے۔

میں نے اس نظم کا عنوان ’’درد کا دیوتا ‘‘ رکھا ہے۔ بے شک دکھ ہی آدمی کوعظیم بناتا ہے۔ بڑے بڑے دکھ اٹھانے والے ہی بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے مفاہمت نہ کی تو ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مستقبل قریب میں موجودہ حکومت اس حوالے سے بین الاقوامی دبائو برداشت نہیں کر سکے گی۔ یوں یہ چلتے ہوئے معاملات جنوری دوہزار پچیس سے آگے بڑھتے نہیں دکھائی دیتے۔ کچھ شہادتیں ہیں جو دیکھنے والوں کونظر آرہی ہیں۔ نواز شریف کی لندن روانگی، نون لیگ کے اندرشین لیگ اور میم لیگ کی موجودگی، مولانا فضل الرحمن کا چھبیسویں ترمیم میں ساتھ دینے کے باوجود حکومت میں شریک نہ ہونا، بلاول بھٹو کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے وعدے ،پی ٹی آئی کی خاموشیاں کچھ کہہ رہی ہیں۔

بہر حال میں اس وقت ’’کم بیک پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے بہ زبان فیض یہی کہوں گا

آجاؤمیں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ

آجاؤ مست ہوگئی میرے لہو کی تال....

آجائو پاکستان

آجاؤ میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا

آجاؤ میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال

آجاؤ میں نے درد سے بازو چھڑا لیا

آجاؤ میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال

آجائو پاکستان

پنجے میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز

گردن کا طوق توڑکے ڈھالی ہے میں نے ڈھال

آجائو پاکستان

چلتے ہیں ہرکچھار میں بھالوں کے مرگ نین

دشمن لہو سے رات کی کالک ہوئی ہے لال

آجائو پاکستان

آجائو پاکستان

تازہ ترین