نومبر مصور پاکستان علامہ اقبال کی پیدائش کا مہینہ ہے، جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کیلئےجداگانہ ریاست کانظریہ پیش کیا، بلکہ مسلم ریاست کے قیام کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے یہ نشاندہی بھی کر دی کہ صرف محمد علی جناح اپنی دیانت، امانت اور قابلیت کے باعث مسلم ریاست کے حصول کیلئے موزوں ترین قائد ثابت ہو سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کی ہزار رنگ شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ایک کامیاب وکیل تھے،جن فوجداری اور دیوانی مقدمات کی اقبال نے بطور ایڈووکیٹ پیروی کی ان میں پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ ان کے حق میں آیا،جس سے ان کی قانون پر اعلیٰ مہارت ثابت ہو جاتی ہے۔ اقبال صرف عدالتوں میں پیش ہونے والے وکیل نہیں تھے وہ اپنی مسلمان قوم کے وکیل بھی تھے۔ ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل انہوں نے تصورِ پاکستان کے طور پر پیش کیا جوان کے قانون دان دماغ کا مرہون منت تھا۔وہ خواتین کے حقوق، لازمی تعلیم اور عوامی حقوق کے علم بردار بھی تھے، جو کسی بھی جمہوری نظام کا خاصہ ہے، علامہ اقبال جمہور کی حقیقی حکمرانی قائم کرنا چاہتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے ہم آج تک اپنے ملک میں آئین کی پاسداری نہ کر سکے، جو قانون اور آئین ہم نے بنائے اس میں اپنی مرضی، منشا اور فائدوں کیلئے جب موڈ ہوا ترامیم کرتے رہے،مگر ان ترامیم کا جمہور کو کیا فائدہ ہوا اس بارے میں کبھی ہم نے سوچنا بھی گوارا نہ کیا۔ گزرے ماہ میںکئی مہینوں کے سیاسی جوڑ توڑ، اہم رہنمائوں کے سر جوڑ، گرما گرم بحث ومباحثہ کے بعد حکومت اپنے اتحادیوں کی مدد سے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ جسے ملک کے سیاسی استحکام بلکہ قومی سلامتی اور معاشی بحالی کیلئے بھی نیک فال قرار دیا جا رہا ہے، مگر اس سے عوام کو کیا ملے گا، اس پر کوئی توجہ نہیں، عوامی مسائل کے حل کیلئے ترمیم کب آئیگی؟ یہ کئی ملین ڈالرکا سوال ہے۔
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں سال غربت کی شرح گزشتہ سال کی نسبت اعشاریہ تین فی صد بڑھنے کے بعد 40.5فیصد ہو گئی، پاکستان میں سالانہ 16لاکھ نئے نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع ناکافی ہیں جبکہ سست رفتار معاشی ترقی، بلند شرح مہنگائی اور اجرت میں کمی کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت میں اضافے کا یہ رجحان مسلسل جاری ہے۔ ریاستی اداروں میں پچھلے کئی برسوں کے دوران جاری کشیدگی، سیاسی انتشار اور بے یقینی نے لاکھوں پڑھے لکھے جوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا، مہنگائی بے قابو عفریت بن چکی ہے، امن اومان کی صورت حال ابتر ہے، کراچی سمیت ملک بھر میں جرائم کی شرح میں اضا فہ ہو گیا ہے، ان وارداتوں سے خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں، جبکہ لوٹ مار کرنیوالے بے گناہ شہریوں کی جانوں سے بھی کھیل رہے ہیں، کراچی میں پچھلے کئی ماہ کے دوران نوجوان، بزرگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ لاہور، پشاور اور ملک کے کئی دوسرے شہروں میں بھی صورت حال خاصی خراب ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو توجہ دینا چاہئے، فوری طور پر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیلئے صوبائی کمیٹیوں کے اجلاس طلب کئے جائیں۔ واضح رہے کہ لوٹ مار اور ڈکیتی کی وارداتوں میں منظم گروہ سرگر م ہیں جنہیں پولیس کی سرپرستی بھی حاصل ہے، پولیس سے جرائم پیشہ لوگوں کا بھی خاتمہ کیا جانا چاہئے، پولیس شہر میں بے گناہ لوگوں کو تلاشی کے نام پر روک کر انہیں بلیک میل کرنے میں لگی ہوئی ہے، جبکہ ڈکیت اپنی کارروائی میں مصروف ہیں۔ موجودہ صورت حال کی وجہ سے صنعت کار اور تاجر برادری بھی پریشانی کا شکار ہیں، لوٹ مار میں اضافہ بے روزگاری کے سبب ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پولیس میں پڑھے لکھے اور مقامی لوگوں کو شامل کیا جائے جس سے جرائم کی شرح میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ غربت کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ان اسباب کا ازالہ ضروری ہے جس کیلئے ہماری پوری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو اسے اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا۔ دوسری جانب سیکورٹی اداروں کے سرچ آپریشن اور خوارج کے خلاف بھرپور کامیاب کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے آرمی ایکٹ اور ججز ایکٹ میں ترمیم کے بل بھی منظور کئے ہیں، آرمی، نیول اور ائیر فورس ایکٹ میں ترمیم کے مطابق سروسز چیفس کے عہدے کی مدت اب تین سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی۔ قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34کرنے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد 9سے 12کرنے کا بل کثرت رائے سے منظور کیا۔ 26ویں آئینی ترامیم کے بعد ججوں کی سوچ میں یکسانیت اور عزم میں ہم آہنگی مثبت اظہار کی غماز ہے جو عدالتی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور خوش آئند پیش رفت ہے۔ یہ عمل عدل و انصاف کی فراہمی کے حوالے سے قابل ستائش اور ملک کے روشن مستقبل کی علامت ہے۔ توازن اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ ملک میں سیاسی بحران، انتشار اور کشمکش کی فضا ختم ہو۔ پی ٹی آئی کو مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا یہ جہاں ملک کے مفاد میں ہے، وہیں اس جماعت کی سیاسی ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا، حرف آخر یہ کہ ایک آئینی ترمیم عوام کے مفاد میں لائی جائے جس سے بے روزگاری، مہنگائی کا خاتمہ ہو سکے، بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی یقینی ہو سکے، تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری آسکے اور لوٹی ہوئی دولت ملکی خزانے میں جمع ہو سکے۔ اسی سے صحیح معنوں میں ملک میں جمہوری عمل اور نظام کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکے گی۔