• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم اچھا ہوتے ہی ہر دوسرے دن کسی نہ کسی کتاب کی تقریب رونمائی نکل رہی ہے۔ انداز وہی صدیوں پرانا اور اذیت ناک ہے۔ پانچ بجے کا وقت ہو تو تقریب چھ یا سات بجے شروع ہوگی۔ اس کے بعد پندرہ بیس بندوں کا خطاب اور اگر کتاب شاعری کی ہو تو بعد میں لگے ہاتھوں مشاعرہ بھی۔اس سارے عمل میں صاحب کتاب کے پاس دس پندرہ منٹ میسر ہوتے ہیں جن میں وہ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور دو تین اپنی چیزیں بھی سنا دیتے ہیں۔مجھے ترس آتا ہے اُن لوگوں پر جن بیچاروں نے نہ کتاب پڑھی ہوتی ہے نہ تقریب میں اُن کا کوئی حصہ ہوتاہے بلکہ وہ محض تماشائی کے طور پر موجود ہوتے ہیں ، تالیاں بجاتے ہیں ، تقاریر سنتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔اگر آپ کسی تقریب رونمائی کی خبرمیں یہ جملہ پڑھیں کہ بہت ’باوقار‘ تقریب منعقد ہوئی تو سمجھ جائیں کہ حاضرین بہت کم آئے تھے۔بھرپوراور پروقار تقاریب میں یہی فرق ہے۔یقین مانئے دل کڑھتاہے کہ ایسی تقاریب کا کیا فائدہ ہے؟کتنے لوگ ہیں جو کتاب مکمل پڑھتے ہیں اور بالفرض نہیں پڑھنا چاہتے تو اُنہیں زبردستی کتاب کیوں پڑھائی جائے؟۔ میں بے شمار ایسے ادیبوں شاعروں کو جانتا ہوں جن کی کتاب کی تقریب رونمائی تو بہت شاندار ہوئی، حاضرین بھی کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے لیکن پانچ سو کی تعداد میں چھپنے والی کتاب آج بھی پبلشر کے گودام میں پڑی سڑ رہی ہے۔کیا وجہ ہے کہ تقریب رونمائی و پذیرائی کے باوجود کتاب فروخت نہیں ہوتی، کتاب کا کسی اچھے فورم پر تبصرہ تک نہیں سننے کو ملتا۔ وجہ صرف ایک ہے کہ کتاب وہی ہے جو اپنا آپ خود منوائے۔ تشہیر سے کتاب اور مصنف کا نام تو شائد لوگوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن کتاب وہی فروخت ہوتی ہے جس کی تعریف ہم دوسرے لوگوں سے سنتے ہیں۔ادبی حلقوں میں اکثر حاضرین کی کمی کا رونا رویا جاتاہے۔ حاضرین کیوں آئیں اور کس لیے آئیں؟وہی رٹے رٹائے جملے، وہی تعریف و تحسین کے بے اثر ڈونگرے۔نئے پن سے عاری تبصرے اور جماہیوں کو تحریک دینے والا اندازِ گفتگو۔ڈھیروں ادبی انجمنیں متحرک ہیں اور سب کا دعویٰ ہے کہ وہ ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ان میں سے کچھ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو اَدب کے ساتھ ساتھ ادیبوں کی بھی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ ان میں حسین مجروح صاحب کی ’سائبان‘ سرفہرست ہے جس کا زور کتاب خریدنے پر ہے ، بدحال ادیب کی مالی معاونت پر ہے۔لیکن زیادہ تر انجمنیں تقریب رونمائیوں اور مشاعروں تک محدود ہیں۔کیوں نہ تقریب رونمائی کا طریقہ کار بدلا جائے۔ صدارت اور مہمان خصوصی والا کام ختم کیا جائے۔اسٹیج پر صرف صاحب کتاب کو بٹھایا جائے اورخطبات کی بجائے ماحول کو مکالمے کا انداز دیا جائے جس میں حاضرین بھی برابر کے شریک ہوں۔صاحب کتاب اور ان کی تخلیق کے حوالے سے میزبان پانچ دس منٹ کا ایک تعارف پیش کریں اور اُس کے بعد تمام حاضرین کودعوت دی جائے کہ وہ کتاب کے حوالے سے صاحب ِکتاب سے کوئی بھی سوال کر سکتے ہیں۔میں تو یہ بھی کہوں گا کہ تقریب سے پہلے کتاب کی ایک پی ڈی ایف کاپی تیار کروائی جائے اور تمام حاضرین کو واٹس ایپ کردی جائے تاکہ لوگ پہلے سے کتاب پڑھ کر اپنا سوال تیار کرکے آئیں۔ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ پی ڈی ایف مل جائے گی تو پھر کتاب کون خریدے گا؟ میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔گویا پہلے تو بک اسٹالوں پر کھڑکی توڑ رش دیکھنے کو ملتاہے۔پی ڈی ایف کا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ بار بارمفت کتاب مانگتے ہیں اُن کی بڑی اچھی تسلی ہوسکتی ہے۔جنہوں نے واقعی پڑھنی ہوگی وہ پڑھ لیں گے ۔میرا تو دل چاہتا ہے کہ تقریب رونمائی کا انداز گول میز کانفرنس جیسا ہو۔ پندرہ بیس لوگ ہوں جو مکمل طور پر کتاب پڑھ کر آئے ہوں اور یہی لوگ بیٹھ کر کتاب پر بات کریں۔لیکن چونکہ ایسی صورت میں حاضرین والا فارمولا کام نہیں کر سکتا لہٰذا ہمارے ادبی حلقوں میں تقریب کے بعد’مشاعرے‘ والا شوشہ اکثر کام کرجاتاہے جس کی وجہ سے اکثر شعراء اُس وقت تشریف لاتے ہیں جب تقریب رونمائی اختتام پذیر ہوچکی ہوتی ہے اور مشاعرہ شروع ہونے والا ہوتاہے۔میرے ایک پرانے دوست تقریبات میں حاضرین کو بلانے کیلئے کمال کا فارمولا استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ سب جاننے والوں کو بطور مہمان خصوصی بلاتے تھے ، یوں سب اسی شوق میں کھنچے چلے آتے تھے کہ اُن کی حیثیت بہرحال دیگر سے مختلف ہے۔میں نے اُن کی کئی تقاریب میں چالیس مہمان خصوصی بھی حاضرین میں بیٹھے دیکھے۔

سچ پوچھئے تو اِن تقاریب کا ایک بڑا مقصد تصاویر بنوانا بھی ہوتاہے۔ جن کو اسٹیج پر تقریر کیلئے نہیں بلایا جاتا وہ پھول لے کر پہنچ جاتے ہیں اور تصویر بنوا لیتے ہیں۔ بڑا دل چاہتا ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے گونگے لوگوں کو بھی بولنے کا موقع دیا جائے۔ اِن سے بھی پوچھا جائے کہ حضور آپ جو اتنی دیر سے تقریریں سن رہے ہیں تو کچھ بتائیے کیا سمجھ آیا؟ تالیاں تو آپ نے بجا دیں ، بات کیا ہوئی تھی؟۔دوسری اہم بات یہ کہ تقریب کسی صورت ایک ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کی نہیں ہونی چاہیے۔ کارڈ پر تقریب شروع ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہونے کا ٹائم بھی مینشن ہونا چاہئے اور دونوں باتوں پر سختی سے عمل بھی ہونا چاہیے۔یقین کریں جو لوگ پہلی بار کسی کتاب کی تقریب میں آتے ہیں وہ تقریب کی تاخیر اور بوریت سے اکتا کر دوبارہ آنے کے سوال پر کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں۔میوزیکل کنسرٹس اسی لیے کامیاب رہتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو انجوائے کرنے کا بہت موقع مل جاتاہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ کنسرٹس بھی بوریت کا شکار ہوجائیں تو اس میں بھی کسی بڑے گلوکار کو بلا کر دیگر گلوکاروں سے تقاریر کروا لیں۔کچھ عرصے بعد لوگ آنا چھوڑ دیں گے۔کتابوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ یہ محبت لوگوں کے دلوں میں اجاگر کریں اورپوری دلچسپی سے کریں۔

تازہ ترین