• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کرنے والے آئی سی سی پراسیکیوٹر کریم خان کے خلاف جنسی ہراسانی کی تحقیقات

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے اپنے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے خلاف جنسی ہراسانی کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ مئی میں کریم خان نے عالمی فوجداری عدالت کو یہ درخواست دی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو اور حماس رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ جنسی ہراسانی کی تحقیقات پر کریم خان نے کہا کہ وہ اس عمل میں تعاون کریں گے مگر اپنے عہدے میں موجود رہیں گے۔ چیف پراسیکیوٹر نے عالمی فوجداری عدالت کے ایک نگران ادارے کو تحقیقات کی درخواست کی تھی تاہم پیر کو آئی سی سی کی گورننگ باڈی نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات باہر سے کروائی جائے گی۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی دستاویزات گردش کر رہی ہیں جن میں کریم خان پر الزام ہے کہ انہوں نے خاتون کو جنسی طور پر چھوا اور انہیں ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ کریم خان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ایک بیان میں کریم خان نے کہا کہ ماضی میں وہ اس معاملے پر تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق اِن الزامات پر تحقیقات سے جڑے معاملات نائب پراسیکیوٹرز دیکھیں گے جو انہیں جوابدہ نہیں ہیں تاکہ تمام لوگوں کے حقوق کا مکمل احترام کیا جائے۔ کریم خان پر کیا الزام ہے؟۔ اخبار گارڈین کے مطابق ایک خاتون وکیل کا دعویٰ ہے کہ کریم خان نے انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے یہ معاملہ آئی سی سی کے نگران ادارے انڈیپنڈنٹ اوورسائٹ مکینزم (آئی او ایم) کے سامنے اٹھایا تھا۔ اخبار کے مطابق کریم خان نے مبینہ طور پر متاثرہ خاتون پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنا دعویٰ واپس لیں۔ کریم خان کو مبینہ طور پر مذکورہ خاتون سے ذاتی طور پر کسی رابطے سے پرہیز کا کہا گیا تھا۔ گارڈین کے مطابق کریم خان نے اس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ انہوں نے خاتون پر الزام واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ آئی او ایم نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اس نے متاثرہ خاتون سے رابطہ کیا ہے تاہم اس مرحلے پر وہ کوئی تحقیقات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پیر کو ایک بیان میں آئی او ایم نے کہا کہ ادارہ تحقیقات کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم موجودہ حالات میں اس معاملے کی تحقیقات اب باہر سے کرائی جائے گی تاکہ اسے آزاد، غیر جانبدار اور شفاف بنایا جا سکے۔ یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے کہ جب آئی سی سی اور اس کے چیف پراسیکیوٹر غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر غور کر رہے تھے۔ مئی میں کریم خان نے کہا تھا کہ اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے جاری غزہ جنگ کے تناظر میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو ان کے سابقہ وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کی قیادت پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ حماس کی قیادت میں شامل یحییٰ سنوار، محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اپنے ماضی کے ایک بیان میں کریم خان نے اپنے خلاف جنسی ہراسانی کے الزام پر اسرائیل کا نام لے کر اسے قصوروار نہیں ٹھہرایا مگر یہ ضرور کہا کہ ’’یہ ایسا لمحہ ہے جب مجھے اور عالمی فوجداری عدالت کو وسیع پیمانے پر حملوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے‘‘۔ جنسی ہراسانی کے الزام غزہ جنگ سے پہلے کے بتائے گئے ہیں۔ آئی سی سی کے ایک پینل میں شامل تین ججز کریم خان کی درخواست پر اِن وارنٹ گرفتاری پر غور کر رہے ہیں۔ ایڈنبرا سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ تک کا سفر: کریم خان کون ہیں؟ کریم اسد احمد خان 30مارچ 1970کو اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر سعید احمد پاکستانی تھے وہ 1960کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئے۔ اسد خان کی والدہ برطانوی شہری ہیں۔ 1992کے دوران کریم خان نے لندن کے کنگز کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت کا آغاز کیا۔ وہ لندن کی ایک قانونی فرم ٹیمپل گارڈن چیمبرز کے ممبر ہیں۔ عالمی فوجداری قانون اور انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر انہیں 30سال سے زیادہ کا پیشہ ورانہ تجربہ حاصل ہے۔ وہ ملکی اور بین الاقوامی فوجداری ٹربیونلز میں بطور پراسیکیوٹر، متاثرہ فریق کے وکیل اور وکیل صفائی کی حیثیت سے کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ اب تک بین الاقوامی فوجداری عدالت، بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل برائے روانڈا، بین الاقوامی ٹریبونل برائے سابق یوگوسلاویہ، خصوصی عدالت برائے لبنان اور خصوصی عدالت برائے سیرا لیون میں بطور وکیل پیش ہو چکے ہیں۔ کریم خان 1997اور 2000 کے درمیان سابقہ ملک یوگوسلاویہ کے لیے قائم بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل اور روانڈا کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل کے استغاثہ میں قانونی مشیر رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی فوجداری عدالت میں بطور لیڈ کونسل فرائض سر انجام دیتے ہوئے 2016سے 2018کے دوران لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کے وکیل دفاع کے طور پر ان کی نمائندگی بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ 2017سے 2018کے دوران کریم اسد خان آئی سی سی کے بار کونسل کے صدر بھی رہے۔ وہ افریقی بار ایسوسی ایشن کے عالمی سفیر بھی ہیں۔ 2018میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے انھہیں عراق میں نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے پہلے خصوصی مشیر اور سربراہ کے طور پر تعینات کیا تھا۔12 فروری 2021کو نیویارک میں ہونے والے روم سٹیٹیوٹ کی ممبر ریاستوں کی اسمبلی کے نویں اجلاس کے دوران کریم اسد خان کو آئی سی سی کا پراسیکیوٹر منتخب کیا گیا تھا جس کا حلف انہوں نے 16جون 2021کو اٹھایا۔ وہ نو سال تک بطور آئی سی سی پراسیکیوٹر اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ جولائی 2002میں قائم ہونے والی عالمی فوجداری عدالت کی تاریخ کے وہ تیسرے پراسیکیوٹر ہیں۔ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر نے غزہ جنگ کے دوران پانچ افراد کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کیوں دی؟۔ حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں کہ آئی سی سی نے کسی عالمی رہنما کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست دی ہے۔ قریب ایک سال قبل آئی سی سی کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور روس میں بچوں کے حقوق کی کمشنر ماریہ لیووا بیلووا کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے میں بھی کریم خان نے بطور پراسیکیوٹر اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس فیصلے کے کچھ ہی دنوں کے بعد روس نے کریم خان اور آئی سی سی کے تین ججوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ بعد ازاں روس نے آئی سی سی حکام کا نام ’’مطلوب مجرموں‘‘ کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔ مگر اب غزہ جنگ کے معاملے پر کریم خان اور ان کی ٹیم نے حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے متاثرین سے انٹرویوز کیے ہیں۔ آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کا کہنا ہے کہ نتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع یوو گالانٹ نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سرزد کیے ہیں اور اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں۔ کریم خان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس دفاع کا حق ہے لیکن یہ جرائم اس کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری نہ کرے۔ ان کے مطابق ان کی ٹیم نے حماس کے تین رہنماؤں، نتن یاہو اور گالانٹ کو سزا ملنے کا حقیقی امکان ظاہر کیا ہے۔ کریم خان کہتے ہیں کہ قانون کے سامنے سب کو برابر ہونا چاہئے اور قومیت کی وجہ سے کسی کو اسثنیٰ حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ (بشکریہ…بی بی سی لندن)
یورپ سے سے مزید