• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن اور بیجنگ نے بدترین ’’سموگ‘‘ کے مسئلے کا حل کیسے نکالا

پاکستان وہ پہلا ملک نہیں ہے جہاں سموگ کا مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے بلکہ ماضی میں دو ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومت بھی سموگ کی لپیٹ میں رہے ہیں اور اس سے نکلنے میں انہیں برسوں لگے ہیں۔ یہ شہر بیجنگ اور لندن تھے جہاں اب ائر کوالٹی میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے، آئیے جانتے ہیں کہ ان شہروں نے سموگ سے لڑنے کے لیے کیا کیا اور پاکستان ان ممالک سے کیا سیکھ سکتا ہے۔ دی گریٹ سموگ آف لندن کیا تھی:برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 19ویں اور 20ویں صدی میں متعدد مرتبہ سموگ شہر پر چھا جانے کے واقعات دیکھے گئے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا جب لوگ کوئلہ جلا کر گھروں کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے اور شہر میں موجود ہیوی انڈسٹری میں سے مختلف کیمیکلز فضا میں چھوڑے جاتے۔ 1952میں دی گریٹ سموگ آف لندن ان سب میں سے سب سے زیادہ مقبول موقع تھا جب چار روز تک حدِ نگاہ اتنی کم ہو گئی تھی کہ صرف چند فٹ تک ہی واضح دکھائی دیتا تھا۔ اس دوران کچھ اندازوں کے مطابق 10ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سموگ نے زندگی کو ایسے مفلوج کر دیا تھا کہ یہ گھروں اور تہہ خانوں میں بھی داخل ہو گئی تھی اور سنیما گھروں میں سکرینز نظر آنا بند ہو گئی تھیں۔ 5دسمبر 1952کو جب تہوار کے موسم کے آغاز کے بعد لندن کے باشندے شہر میں سیر و تفریح کر رہے تھے، تو ایسے میں صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جیسے جیسے رات ڈھلتی گئی، دھند گہری ہوتی گئی اور جلد ہی سموگ کی ایک تہہ نے دارالحکومت کو اندھیروں میں ڈبو دیا اور نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا۔ لندن والے سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر انہیں چند گز سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اگلے دن سورج طلوع ہوا تو سموگ پھر بھی برقرار رہی بلکہ سورج کی روشنی میں یہ مزید گہری ہو گئی یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں لوگ ایک قدم باہر نہیں نکال سکتے تھے۔ اگلے چار دنوں تک شہر مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا۔ زہریلی ہوا میں سانس لیتے لندن والے اب ایک نئی مصیبت میں گِھر گئے۔ شہر میں نمونیا اور برونکائٹس (کھانسی، گلا خرابی جیسے امراض) پھیل گئے اور شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے کیونکہ ہزاروں لوگ زہریلی ہوا میں دم توڑ گئے۔ برطانیہ نے اس کا کیا حل نکالا: اس شہر کی خوبصورتی اور رونقیں تب بحال ہوئیں جب وہاں کے حکمرانوں نے عوامی مطالبات پر ایسے اقدامات اٹھائے جس سے پھر اس سموگ، دھوئیں اور فضائی آلودگی کے زہریلے بادل نہ صرف چھٹ گئے بلکہ دنیا بھر کے انسان اب اس شہر کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں سے تصاویر بنا کر اپنے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔ لندن میں اس واقعے کے بعد سے حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے لیکن 1956میں برطانیہ کی پارلیمان کی جانب سے ’’کلین ایئر ایکٹ‘‘ پاس کیا گیا جس میں صنعتی اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں ’’سموک کنٹرول ایریاز‘‘ بنائے گئے جہاں صرف ایسے ایندھن جلائے جاتے جن کا دھواں قدرے کم ہوتا ہے اور گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ پائیدار ایندھن پر منتقل ہو سکیں۔ 1968میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور لندن کی ائر کوالٹی میں اس کے بعد کی دہائیوں میں بہتری آنے لگی۔ شہر کی جانب سے ’’الٹرالوایمشن زون‘‘ متعارف کروائے گئے جن میں زیادہ دھواں پھیلانے والی وہیکلز پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ لندن سٹی ہال کی جانب سے اس پالیسی کے نفاذ کے چھ ماہ بعد کہا گیا کہ فضائی آلودگی میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اب بھی لندن میں فضائی آلودگی یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ چین میں سموگ کب آئی اور اس کا کیسے بندوبست کیا گیا:چین میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی کے باعث فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملا۔ 1980کی دہائی کے بعد سے جب چین میں کوئلے سے چلنے والے پاور سٹیشن اور گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں زہریلے کیمیکلز اور فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ 2014میں شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کا کہنا تھا کہ شہر ’’انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا‘‘ کیونکہ یہاں آلودگی بہت زیادہ ہےتو پھر چین نے اس کا حل کیا نکالا اس کے لیے سالوں کی محنت کرنا پڑی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013سے 2017میں چار سال کے درمیان بیجنگ میں فضا میں زرات کی شرح 35فیصد سے کم ہو کر 25فیصد ہو گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے کسی اور شہر نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی۔ تاہم یہ اس لیے تھا کیونکہ چین نے جو اقدامات متعارف کروائے وہ 1998کے بعد سے دو دہائیوں تک مختلف اشکال میں نافذ کیے جاتے رہے۔ چین کی حکومت نے صنعتوں پر اخراج کو بہت کم کرنے کیلئے معیار وضع کیے، جدید ائر کوالٹی مانیٹرنگ نظام بنایا اور مزید پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بھی بنایا۔ چین میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی بھی بہتر بنائی گئی۔ بیجنگ نے تاحال مکمل طور پر اس مسئلے کو حل نہیں کیا۔ شہر میں اب بھی فضائی آلودگی ہے اور آمدورفت کے دوران اکثر افراد ماسک کا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہیکل سے خارج ہونے والے دھوئیں کو کم کرنے، نجی بزنس کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی مراعات، ڈیٹا کا درست استعمال اور صنعت کو ہیوی انڈسٹری کے علاوہ دیگر شعبوں میں پھیلانے سے فضائی آلودگی میں کیسے کمی آتی ہے۔ ایک بڑے ایکشن پلان کے تحت دیگر اقدامات کے علاوہ کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگا دی گئی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بند کر دیا گیا، ڈیزل ٹرکس میں ایندھن اور انجن کے معیار کو بڑھایا گیا جبکہ آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کا استعمال بند کر دیا۔ لوگوں کو الیکٹرک کاروں کو اپنانے اور مختصر سفر کے لیے اپنی سائیکل چلانے کی ترغیب دی گئی۔ (بشکریہ ۔بی بی سی…لندن)
یورپ سے سے مزید