اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) وزارت توانائی کے سینئر حکام نے دی نیوز کو بتایا کہ گزشتہ 5 دنوں میں گیس لائن پیک پریشر 5.12 سے 5.228 بی سی ایف کی حد میں بڑھتا رہا جو کہ 5بی سی ایف کے انتہائی خطرے کے نشان سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں قومی گیس ٹرانسمیشن نیٹ ورک مزید خطرے سے دوچار ہوگیا ہے جیساکہ پاور سیکٹر کی جانب سے درآمد شدہ گیس کی کھپت میں مزید کمی آئی ہے۔ جب سسٹم میں پریشر 5 بی سی ایف تک پہنچ جائے تو یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور پورے ملک کو گیس کی دستیابی سے محروم کر سکتا ہے۔ اس طرح مقامی اور درآمدی گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس، صنعت، کمرشل، فرٹیلائزر سیکٹر اور کاروباری دکانیں ٹھپ ہو جائیں گی۔ ایل این جی کا بنیادی ڈھانچہ بشمول دو آر ایل این جی ٹرمینلز، قطر کے ساتھ دو طویل مدتی معاہدوں والی آر ایل این جی پائپ لائنز اور ای این آئی کے ساتھ ایک مدتی معاہدہ، بنیادی طور پر پنجاب میں قائم 4800 میگاواٹ کے آر ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹس کے لیے تعمیر کیا گیا تھا لیکن یہ پاور پلانٹس اپنی بہترین سطح پر نہیں چل رہے ہیں۔ مذکورہ پلانٹس اس بیانیہ کے ساتھ بنائے گئے تھے کہ ان سے سستی بجلی پیدا ہوگی کیونکہ ان کی کارکردگی 62فیصد سے زیادہ ہے۔ اب یہ پلانٹ مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں کیونکہ ان کی ایندھن کی قیمت زیادہ ہے۔ ایس این جی پی ایل کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر مختص کے مقابلے میں مسلسل کم آر ایل این جی استعمال کر رہا ہے۔