• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کی معیشت، زراعت اور مقامی ماحول کا انحصار سندھ کے دریا، خاص طور پر دریائے سندھ پر ہے۔ یہ دریا سندھ کے میدانی علاقوں کو تازہ پانی فراہم کرتا ہے جس پرنہ صرف زراعت کا دارومدار ہے بلکہ دریائے سندھ کا ڈیلٹا بھی زندہ ہے۔ بدقسمتی سے، حالیہ برسوں میں نئی نہروں اور پانی کی تقسیم کے منصوبوں کے سبب سندھ کے اس قدرتی نظام کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ نہریں بالائی علاقوں میں پانی کے بہاؤ کو کم کرتی ہیں، جس سے سندھ کے لئے پانی کی کمی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس صورتحال کا اثر نہ صرف سندھ کے کسانوں پر پڑ رہا ہے بلکہ ڈیلٹا کی بقا بھی خطرے میں ہے۔

نئے نہری منصوبے بالائی علاقوں میں آبپاشی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تشکیل دیے جاتے ہیں، لیکن اس کا براہ راست اثر سندھ پر پڑتا ہے۔ جب دریائے سندھ کے پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے، تو یہ نیچے کے علاقوں تک صحیح مقدار میں نہیں پہنچ پاتا، جس کے نتیجے میں زرعی زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ زمین کی نمی ختم ہونے لگتی ہے اور کاشتکاری کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں۔ اس کمی کا سیدھا اثر مقامی کسانوں اور ان کی معیشت پر پڑتا ہے، جس سے ان کی معاشی حالت خراب ہو جاتی ہے۔

دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی صحت کے لئے دریا کا بہاؤ مسلسل اور مناسب مقدار میں ہونا ضروری ہے۔ ڈیلٹا، جو کہ مٹی، پانی اور سمندری حیاتیات کی اہم بقا کا مرکز ہے، اس میں کمی آنے سے سمندری پانی آگے بڑھ جاتا ہے اور زمین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس سے مچھلیوں کی نسل ختم ہونے لگتی ہے، مینگروو کے جنگلات جو ڈیلٹا کی حفاظت کرتے ہیں، کمزور ہونے لگتے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہی گیر طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ اپنی روزی روٹی کے لئے ان وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ سمندری پانی کے زمین میں شامل ہونے سے فصلوں اور زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے، جو کہ زرعی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ڈیلٹا کی تباہی سے نہ صرف ماحولیات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ سندھ کے لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث کاشتکاروں کی پیداوار میں کمی آتی ہے، جس سے ان کے مالی وسائل محدود ہوتے ہیں اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہی گیری کی صنعت پر پڑنے والے اثرات بھی واضح ہیں، کیونکہ ڈیلٹا کے بگاڑ کے سبب مچھلیوں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔ نتیجتاً، ماہی گیر طبقے کی آمدنی کم ہوتی ہے اور انہیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نئے نہری منصوبوں کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات بھی سنگین ہیں۔ جب پانی کا بہاؤ تبدیل ہوتا ہے تو مٹی کے کٹاؤ اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے لگتی ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف زراعت پر بلکہ پورے خطے کی آب و ہوا پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال سندھ کے لئے ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر رہی ہے اور اس کے لئے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔

پانی کی تقسیم کے معاملے میں بین الاقوامی معاہدے اور صوبائی سطح پر بھی کچھ اصول بنائے گئے ہیں۔ لیکن جب تک ان معاہدوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا، سندھ جیسے زیریں علاقوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ پانی کی تقسیم میں تمام صوبوں کے مفادات کو مدنظر رکھیں اور کسی بھی نئے نہری منصوبے کی منصوبہ بندی سے پہلے اس کے ماحولیاتی، سماجی اور اقتصادی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔

اس باب میں پانی کے وسائل کا موثر اور پائیدار انتظام ہی واحد راستہ ہے جس سے سندھ کے آبپاشی نظام اور ڈیلٹا کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف پانی کے قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھے بلکہ سندھ جیسے زیریں علاقوں کے مفادات کا بھی خیال رکھے۔ اگر ہم نے اس چیلنج کو نظر انداز کیا تو مستقبل میں نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین