لندن (پی اے) برطانیہ کے دو سب سے طویل مدت تک خدمات انجام دینے والے اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں اگلے ہفتے بحث کے لئے پیش کئے جانے والے معاون موت (Assisted Dying) بل کی مخالفت کے لئے اتحاد کیا ہے۔ گارڈین میں ایک مشترکہ مضمون میں لیبر پارٹی کی ڈیان ایبٹ اور کنزرویٹو سر ایڈورڈ لی نے کہا کہ ان کی سیاسی سوچ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ مجوزہ قانون سازی کمزور اقلیتوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے عمل کو ʼʼجلدی میںʼʼ انجام دیا گیا ہے اور اس کے مواد کا جائزہ ʼʼمحدودʼʼ رکھا جا رہا ہے۔ یہ بل بیک بینچ لیبر ایم پی کم لیڈبیٹر نے پیش کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کو انتہائی تکلیف دہ اموات سے بچنے میں مدد دے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں دنیا میں کہیں بھی موجود سب سے سخت حفاظتی اقدامات شامل ہیں۔ یہ بل، جس کا نام ʼʼمہلک بیماری میں مبتلا بالغ افراد کو زندگی کے اختتام کا فیصلہ کرنے کا بل ہے، اس بل کے تحت کسی ایسے شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے کا حق ہوگا، جس کے بارے میں توقع ہو کہ وہ چھ ماہ کے اندر وفات پا جائے گا کہ وہ اپنی موت کے لئے معاونت کی درخواست کرسکے۔ اس قانون کے تحت دو آزاد ڈاکٹر اور ایک جج یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا متعلقہ شخص ان شرائط پر پورا اترتا ہے، جن کے تحت وہ اپنی زندگی ختم کرنے کا انتخاب کر سکے، متعلقہ شخص کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کسی دباؤ کے بغیر واضح خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔ رکن پارلیمنٹ ڈیان ایبٹ اور سر ایڈورڈ نے بل پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیگر جگہوں سے ملنے والے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جب معاون خودکشی کو قانونی حیثیت دی جاتی ہے تو سب سے زیادہ خطرے میں کمزور اقلیتیں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ، جو زندگی کے ہر حصے پر خودمختاری رکھنے کے عادی مراعات یافتہ افراد کی طرح نہیں ہوتے اور جو معیاری سماجی یا پالیٹو کیئر برداشت نہیں کر سکتے، اپنی مرضی کے خلاف معاون موت کو اپنانے کے لئے مجبور ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ مطلوبہ مدد تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ʼʼتصور کریں کہ ایک معمر پنشنر، جس کے بچے اپنے گھر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی محدود بچت، جو ان بچوں کے لئے مختص ہے، سماجی نگہداشت پر ختم ہو رہی ہے اور اس لئے وہ خود ʼمرنے کو اپنا فرضʼ سمجھتا ہے۔ ʼʼیا ایک معمر بیوہ کے بارے میں سوچیں جو ہسپتال میں داخل ہے اور فکرمند ہے کہ وہ این ایچ ایس کے بستر پر قبضہ کئے ہوئے ہے جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس کے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا کہ وہ مر جائے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسے واقعات نسبتاً نایاب ہوں گے لیکن اگر معاون خودکشی کو قانونی حیثیت دی گئی تو ان حالات سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں سب سے طویل خدمات انجام دینے والی خاتون اور مرد اراکین پارلیمنٹ کے طور پر ڈیان ایبٹ اور سر ایڈورڈ کو مدر اور فادر آف دی ہاؤس کے القاب دیئے گئے ہیں۔ ان دونوں میں ایم پیز، جن کے پاس تقریباً 80 سال کا پارلیمانی تجربہ ہے، نے بل پر بحث کے لئے مقرر کردہ شیڈول پر بھی اعتراض کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ 2015 میں، جب ایک اسی طرح کا بل پیش کیا گیا تھا، تو اراکین پارلیمنٹ کو بحث سے پہلے بل پڑھنے کے لئے7 ہفتے دیئے گئے تھے جبکہ لیڈبیٹر کا بل پہلے مباحثے سے صرف18 دن پہلے شائع ہوا تھا۔ اس ٹائم لائن کے ناکافی ہونے کو پارلیمنٹ کے نئے اراکین کی تعداد مزید بڑھا دے گی۔ انہوں نے کہا جب اراکین پارلیمنٹ اس پر ووٹ دیں گے، تب پارلیمنٹ میں بیٹھک کو صرف12 ہفتے ہوں گے جبکہ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ کئی اراکین پارلیمنٹ ابھی تک معمول کے پارلیمانی طریقہ کار سے ناواقف ہیں، نجی اراکین کے بلوں کے بارے میں تو ذکر ہی کیا، جن میں یہ بل موجودہ پارلیمنٹ کا پہلا بل ہوگا۔ نجی اراکین کے بل وہ قانون سازی تصور کی جاتی ہے جو حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ بیک بینچرز کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ بل پر بحث کے بعد اراکین پارلیمنٹ آزادانہ ووٹ دیں گے، یعنی وہ کسی پارٹی لائن پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ اگر بل اپنی پہلی خواندگی کے بعد مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرلیتا ہے تو اسے اراکین پارلیمنٹ اور لارڈز سے مزید جانچ پڑتال کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاہم اس کے قانون بننے کے لئے اسے دارالعوام اور ہاؤس آف لارڈز دونوں سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ اس ہفتے کے شروع میں سابق لیبر ڈپٹی لیڈر ہیریئٹ ہرمین نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بل کو ʼʼضرورت کے مطابق جتنے بھی دن درکار ہوںʼʼ ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ واحد شرط وقت کی پابندی ہے کیونکہ بل کو نومبر2025 تک اپنے تمام مراحل مکمل کرنے ہوں گے۔ʼ انھوں نے کہا کہ ʼمیرا نہیں خیال کہ حکومت بحث کو محدود کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔