تحریر: ڈاکٹر رحیق احمد عباسی… لندن رشید احمد شیخ35 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ میرا ان سے تعارف 1989 سے ہے جب وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے طالبعلم تھے گاہے بگاہے بعد ازاں بھی ان سے رابطہ اور ملاقات رہی۔ وہ ایک فکری و نظریاتی شخصیت ، درد دل رکھنے والے مسلم اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ پچھلے برس جب میرا امریکہ جانا ہوا تو انہوں نے اپنے گھر بھی بلایا۔ تفصیلی ملاقات اور تبادلہ خیال ہوا۔ ان سےمل کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں اور مقامی سیاست میں متحرک ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد ان کا ایک وی لاگ سنا جس میں انہوں نے بہت ہی دلچسپ اور معلومات افزا تجزیہ کیا۔ ان کا تجزیہ تخیلات کا نتیجہ نہیں بلکہ اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔اس موضوع پر ان سے تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوا۔ ان کی اجازت سے ان کی تحقیق و تجزیہ کو اپنے قارئین کے سامنے اپنے الفاظ و اضافہ جات سے پیش کررہا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ کامیابی میں امریکی مسلمانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ امریکی مسلمان صدر ٹرمپ کی حمایت نہ کرتے تو شاید وہ حالیہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکتے یا اس طرح کی کامیابی حاصل نہ کر سکتے جو ان کو حاصل ہوئی ۔ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھنے سے قبل یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ معروف معانی میں دائیں بازو کے سیاستدان ہیں۔ ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی بھی دائیں بازو کی جماعت سمجھتی جاتی ہے جبکہ ان کی مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی قدرے بائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور پورپ میں مسلمان اور دیگر اقلیتی ووٹرز عموما بائیں بازو کی جماعتوں کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں یہاں پر دیگر ممالک سے ہجرت کرکے آباد ہونے والوں کے حوالے سے نرم پالیسی کی حامل ہوتی ہیں۔مثلا برطانیہ میں مسلم ووٹرز کی اکثریت ہمیشہ لیبر پارٹی کی حامی رہی ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ میں بھی مسلم ووٹرز زیادہ تر ڈیموکریٹک کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ 2016اور 2020کے انتخابات میں بھی مسلم ووٹرز نے ڈونلد ٹرمپ کی حمایت نہیں کی تھی۔ اس مرتبہ مسلم ووٹرز امریکی انتخابات سے قبل تذبذب کا شکار تھے۔ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ ایک سال سے مشرق وسطی میں اسرائیلی کی مسلسل حمایت اور جنگ بندی کے لئے کی جانے والی عالمی کوششوں کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں مسلسل ویٹو کے ذریعے ناکام بنانے پر وہ بائیدن انتظامیہ اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ناخوش تھے۔ دوسری طرف وہ ٹرمپ کی بھی کھل کر حمایت اس لئے نہیں کر پارہے تھے کہ ان کی بھی اسرائیل دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ لیکن بائیڈن جو اپنے آپ کو کھلے عام صیہونی قرار دیتے ہوئے کبھی نہیں شرماتا تھا کہ مقابلے میں ان کو جھکاؤ کسی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف تھا۔ البتہ بائیڈن کی انتخابات سے دستبرداری اور کمالہ حیرث کے صدارتی امیدوار بننے سے صورت حال پھر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگئی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں۔ وہ کسی بھی وقت کوئی سرپرائز دے سکتے ہیں۔ انتخابات سے چند دن قبل اچانک ڈونلد ٹرمپ نے پالیسی بیان دیا کہ وہ اقتدار میں آکر مشرق وسطی میں فوری امن لانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اسرائیل و فلسطین کی جنگ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا ویسے بھی جنگ مخالف سمجھتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سابقہ دور صدارت میں امریکہ نے دنیا بھر میں کہیں کوئی بڑی مہم جوئی نہیں کی بلکہ انہوں نے پاکستان اور اس کے وزیر اعظم عمران خان کی سہولت کاری کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کئے اور افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا فیصلہ کیا۔ لہٰذاان کا یہ اعلان کہ وہ مشرق وسطیٰجنگ کو ختم کردیں گے کو مسلم آبادی نے ایک انتخابی نعرے کو طور پر نہیں لیا اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے مسلم ووٹر ڑکو ان کا حامی بنا دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے مسلم ووٹرز میں ماحول سازی میں پاکستانی امریکن نے بھی اہم کردار ادا کیا جن کی اکثریت پہلے سے بائیڈن انتظامیہ سے نالاں و ناخوش تھی۔ پاکستانی امریکن کی ناخوشی کی وجہ بائیڈن انتظامیہ کے پاکستان میں 2022کے رجیم چینج آپریشن میں مبینہ کردار یا اس کی خفیہ حمایت تھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سمندر پاکستانیوں کی غالب اکثریت پاکستان کی موجودہ سیاسی چپقلش میں عمران خان کی حمایتی ہے۔ عمران خان سے امریکن پاکستانیوں کی ہمدردی نے ان کو بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ناخوش کردیا تھا اوران کو ڈونلڈ ٹرمپ کا حمایتی بنا دیا تھا ۔ ان دو عوامل نے ملکر انتخابات سے چند دن قبل تک یہ صورتحال پیدا کردی تھی کہ امریکہ کی تمام ریاستوں میں مسلم ووٹرز نے صدر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کردیا اور یہ ایک حقیقت کے امریکہ میں تقریبا تمام مسلم ووٹرز نے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی ووٹ ڈالا۔ اس پس منظر کے بعد اب آتے ہیں مسلم ووٹرز کے صدر ٹرمپ کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار کے بارے میں۔ امریکہ میں مسلمان کل آبادی کا دو فیصد سے بھی کم ہیں۔ جی دو فیصد سے بھی کم ! کیا یہ بات قرین قیاس ہے کہ دو فیصد آبادی کسی ملک کے صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے ؟ اس کا فوری جواب تو نفی میں بنتا ہے لیکن جب آپ رشید شیخ کے بیان کردہ اعداد و شمار کو دیکھیں گے تو اپنے رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ویسے تو مسلمان امریکہ کی تمام ریاستوں میں آباد ہیں لیکن رشید شیخ کے مطابق کم از کم 5ریاستوں کے 76الیکٹورل ووٹوں کے فیصلے میں مسلم ووٹرز نے فیصلہ کن کردار کیا۔ اگر ان ریاستوں میں مسلم ووٹرز ٹرمپ کو نہ ملتے تو یہ اليکٹورل ووٹ کمالہ حیرث کو مل جاتے۔ اور یوں ٹرمپ کے ایکٹورل ووٹ صرف 236ہوپاتے جبکہ یہ 76ووٹ کمالہ کو ملنے سے ان کے ووٹ 302بن جاتے اور وہ انتخابات جیت جاتیں ان ریاستوں میں پہلی ریاست وسکونسن کی ریاست ہے جس میں ٹرمپ 29417ووٹوں کی برتری سے جیتے جبکہ اس ریاست کی مسلم آبادی 70ہزار کے قریب ہے۔ اس ریاست کے الیکٹرول ووٹ 10ہیں۔ دوسری ریاست مشیگن کی ہے جس میں مسلم ووٹرز کے کردار کی بات تو ہر کوئی کررہا ہے۔ اس میں ٹرمپ 80618ووٹوں سے جیت کر 15الیکٹورل ووٹوں کے حقدار ٹھہرے جبکہ یہاں کی مسلم آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ تیسری ریاست جورجیا کی ہے جہاں کے 16الیکٹورل ووٹ ٹرمپ کا حق قرار پائے کیونکہ وہ یہاں سے 116775 ووٹوں کی لیڈ سے فاتح قرار دیے گئے جبکہ اس ریاست میں سوا لاکھ کے قریب مسلم آباد ہیں۔ پنسلوینیا کی انتخابات پر تو پوری دنیا کی نظر تھی کیونکہ اس ریاست کے الیکٹورل ووٹ 19ہیں۔ ٹرمپ ان ووٹوں کے بھی فاتح قرار پائے کیونکہ وہ اس ریاست میں 145036کی سبقت سے میدان مارنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اس ریاست میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب مسلم آباد ہیں۔ یوں ان 4ریاستوں کے 60الیکٹورل ووٹوں کی جیت میں مسلمانوں کا کردار ناقابل تردید حقیقت ہے۔ پانچویں ریاست شمالی کرولینا کی ہے جس میں ٹرمپ 189311 ووٹوں کی لیڈ سے جیت کر 16الیکٹورل ووٹوں کے حقدار بنے جبکہ اس ریاست میں مسلم آبادی 1لاکھ تیس ہزار کے قریب ہے ۔ اگرچہ یہاں مسلم آبادی ٹرمپ کی لیڈ سے کم ہے لیکن رشید شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ فرض کریں یہاں مسلم ووٹرز کی تعداد 90ہزار ہے اگر وہ 90ہزار ووٹ ٹرمپ کی جگہ کمالہ کو ملتے تو ٹرمپ کے ووٹ 90 ہزار کم ہوجاتے اور کمالہ کے ووٹوں میں90ہزار کا اضافہ ہوجاتا اور یوں یہاں چند سو یا ہزار ووٹوں پر فیصلہ ہوتا جو شاید ٹرمپ کے خلاف ہی جاتا۔ لہذا یہ بات اظہر من الشمس یے کہ امریکہ کے موجودہ انتخابات میں دو فیصد سے کم آبادی رکھنے والی مسلم اقلیت ہے فیصلہ کن کردار ادا۔ شیخ رشید اور میرا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اب دنیا بھر کہ مسلمانوں کے لئے صدر ٹرمپ کا دور اقتدار خوشخبریوں سے لبریز ہوگا ۔ نہ ایسا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی اسرائیل نوازی میں کوئی بڑی کمی آ جائیگی۔ البتہ اگر وہ غزا فلسطین لبنان اور دیگر مسلم ممالک میں اسرائیل کی طرف سے مسلط کی جانے والی جنگ کو رکوانے میں کامیاب ہوجائیں اوریوں مسلمانوں کا قتل عام بند ہوجائے اور آزاد فلسطینی ریاست کی طرف پیش رفت شروع ہوجائے تو یہ بھی ایک غنیمت ہوگی۔ ان انتخابات کا دوسرا نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر کوئی اقلیت منظم ہو جائے تو وہ کتنے دور رس نتائج کی بنیاد بن سکتی ہے ۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں پہلی مرتبہ وہاں کی مسلم آبادی نے اپنے اتحاد اور نظم کی وجہ سے ایک ایسا مقام حاصل کیا ہے جس کو مستقبل میں امریکہ کی ریاست اور سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔