’’میں نے جو کی دوائے دل‘‘ ، یہی کچھ کہانی ہے مقبول سیاسی رہنماء کی ۔ وطن عزیز آج جس سیاسی دلدل میں ہے ، کلیجہ منہ کو آتا ہے ، دل دَہل جاتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ آجکا سیاسی بحران کئی مدوں میں 1971 ء کے بحران سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے ۔ لاینحل سیاسی عدم استحکام سے دوچار ،’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘۔ لرزہ براندام ہوں کہ حکومت ، ادارے ، سیاسی جماعتیں بشمول مقبول قومی رہنماء ، 25 کروڑ لوگ ، سب بند گلی میںہیں ۔ حیف ! جن کو سنگینی کا ادراک اُنکی خوش فہمی و خوش گمانی ساتویں آسمان پر ،دوسری طرف جم غفیر بیگانگی ، لاتعلقی سے مزین ،ایسی بے نوری اور ابتلاء میں دیدہ ور چاہیے تھا ، تاحد ِنگاہ موجود نہیں ہے ۔
اقتدار سے محرومی پر عمران خان ہوش و حواس سے دور ، اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا ، جھوٹ کو سچ پر ترجیح اپنےلیےمنتخب فرمائی ۔ 28سالہ سیاسی عمر میں پہلی دفعہ 2022 میں سیاسی مقبولیت سے متعارف ہوا تو آپے سے باہر ہونا بنتا تھا ۔ ازراہ تفنن ، ایک چوہا شراب کے ڈرم میں گر گیا ، تگ ودو سے باہر نکلا تو نشے میں چور چور ، نعرہ مستانا لگاتا تھا ۔’’ بلی کہاں ہے ، بدلہ چکانا ہے ‘‘۔ عمران خان نےکسی ایسی کیفیت میں عسکری قیادت کو للکارا ، عمران خان کا یہ رول بمطابق جنر ل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کا تیار کردہ سکرپٹ ہی تو تھا ۔عمران خان کی بدقسمتی ، ساری سیاسی زندگی کے سارے احتجاج، پروگرام دانستہ یا نادانستہ اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر رہے۔
اگرچہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی تو اپنی نیت کی بھینٹ چڑھ گئی ، البتہ عمران خان کا داؤ لگ گیا ۔ باجوہ فیض کا اعجاز ہی کہ ملکی تاریخ میں پہلا لیڈرجسکو مین سٹریم میڈیا ، جلسے جلوس ، ریلیوں میں عسکری قیادت کو للکارنے کی کھلی چھٹی تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی ایک بدقسمتی ، جس کسی نے آڑے ہاتھوں لیا اُسی کو سیاست کو رفعتیں ملیں ۔ ایک موقع ایسا آیا کہ جب اپنی تدبیروں کو اُلٹے پڑتے دیکھا تو انکو جنونی دورہ پڑ گیا ۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی آرمی چیف اور ٹاپ جنرل نے عمران خان کو تھپکی دے کر اپنے ہی ادارےپر چڑھائی کروا ڈالی ۔ عمران خان کے ماننے چاہنے والے سوشل میڈیا ٹائیگرز کو موقع ملا ، کھلے عام قائداعظم ثانی کا درجہ دے ڈالا، دبے لفظوں میں قائداعظم سے زیادہ مقبول لیڈر ثابت کر ڈالا۔
اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہی عمران خان نے بزور بازو شہباز حکومت ختم کرنے کی ٹھانی تو شہ دینے والا جنرل فیض موجود تھا ۔ اس سلسلے میں پنجاب/ خیبرپختونخواکے طول و عرض میں عوامی جوش و جذبہ بڑھانے بھڑکانے کیلئے 40 جلسے کر ڈالے ، 25 مئی کو 30 لاکھ کے لشکر سمیت اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کیا ،’’ شیخ آئے جو محشر میں اعمال ندارد !‘‘ 3 ہزار کے لشکر کیساتھ 26 مئی صبح 8 بجے اسلام آباد پہنچے تو ہزیمت ، و رُسوائی دیدنی تھی ۔’’ مذہبی ٹچ‘‘ کے باوجود مقبول رہنماء کی باڈی لینگوئج ،’’یہ اُڑی اُڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو ... تری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ‘‘ ، ناکام و نامراد لوٹ گئے ۔ اگر فیض سے فیضیابی کا سلسلہ جاری نہ رہتا تو 26 مئی کی تضحیک آمیز پسپائی کے بعد سیاست دم توڑ چکی تھی ۔ جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہارنا، مقبول رہنما نے ستمبر 2022 میں جہاں جنرل باجوہ ( میر جعفر ،میر صادق ) کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ توسیع کا اعلان فرمایا تو ایک عالم ہکا بکا، لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ممکنہ تعیناتی رُکوانے کیلئے یکم نومبرکو راولپنڈی GHQ پر چڑھائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر بم کو لات مار دی ۔ تعیناتی رُکوانے کیلئے ملک بھر میں درجنوں جلسے کیے ، GHQ پر چڑھائی کو’’جہاد اکبر ‘‘کاعنوان دیا۔ جلسوں میں شرکت کیلئے قرآن پر حلف لیے ۔ ظلم کی انتہاء ،23 اکتوبر کو ارشد شریف قتل ہوا کہ یکم نومبر کے لانگ مارچ کا جوش بڑھایا جا سکے۔
یکم نومبر کو جب معرکہ سر کرنے ’’قافلہ راہِ حق‘‘، ’’جہاد اکبر‘‘ پر نکلا تو حلف اُٹھانے والے ہزاروں لاموجود ، البتہ چند ہزار موجود تھے ۔ یقیناً سکرپٹ رائٹر کی فرسٹریشن ہی کہ عمران خان پر 3 نومبر کو گولیاں چلوا دیں ، مقصد خانہ جنگی کی صورت میں مارشل لاء لگایا جا سکے ۔ ایسی جامع منصوبہ بندی کے ساتھ 25 نومبر کو جب راولپنڈی پہنچے تو سڑک کی ایک سائیڈ پر 3/4 سو گز میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر ناپید تھا ، کوزے میں بند مجمع سے خطاب فرمانا پڑا ۔ دو باتیں عرض کرنی ہیں ، اسٹیبلشمنٹ کی مکمل مدد اور مقبول قومی رہنماء کی بقلم خود ولولہ انگیز قیادت ، سوشل میڈیا پیالی کا سونامی ، کیا سبق اَزبر کروایا گیا کہ ایسا ہر خانہ ناکامی و نامرادی سے بھرا پڑا ہے ۔ 2014 تا 2022مظاہروں کی ناکامیوں کا ہزیمت آمیز سفر ، کاش فیصلہ سازی کو بہتر کرلیتے۔
فاسٹ فارورڈ ، 8 فروری الیکشن کے بعد درجنوں ہڑتالوں ، احتجاجوں اور پاورشوز کی صدائیں دیں ، صدبہ صحرا رہیں ۔ہر ناکامی سبق آموز ، سبق نہیں سیکھا۔ حال ہی میں 24نومبر ( 2 دن بعد ) احتجاج کی کال بعنوان’’ مارؤ یا مر جاؤ‘‘ ، الٹی گنتی شروع ہے ۔ اپنی کہی بات کو دہراتا ہوں ،’’عمران خان نے ناکامیوں کا ریکارڈ بنا رکھا ہے ‘‘، کیسے مان لوں کہ احتجاج کامیاب ہوگا ؟ ایسے وقت جب ولولہ انگیز قیادت بنفس نفیس موجود تھی تو تب بھی احتجاج ، ریلیاں ، دھرنے سو فیصد ناکام رہے۔ احتجاج سے پہلے چار سُو شور و غوغا ، سوشل میڈیا پیالی میں’’سونامی‘‘ ، مین سٹریم میڈیا دن رات تجزیہ تخمینے جڑ رہا ہے ، نتیجہ ہر دفعہ ٹھن ٹھن گوپال ! ۔ کسی ذی شعور سے مجھے رہنمائی چاہیے کہ 24 نومبر کا احتجاج کیونکر کامیاب ہوگا؟ خدشہ ہے کہ کالم چھپنے تک شاید بِن کھلے مرجھا چکا ہو ۔ میری ذاتی اطلاعات کیےمطابق علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر خان نے عمران خان کو دو ملاقاتوں میں زمینی حقائق سے کماحقہ آگاہ کر دیا ہے کہ بلند بانگ دعوں کے باوجود ناکامی ثبت رہے گی۔ عمران خان کے تینوں مطالبات کو منہ کی کھانی ہے۔ عمران خان کے سیاسی سفر کا خلاصہ ،’’دو آرزو میں کٹ گئے ، دو انتظار میں‘‘۔ چند ماہ پہلے تک ادارے کے اندر سے مدد کا انتظار پچھلے چند ماہ سے سپریم کورٹ کے انقلابی فیصلوں سے 70نشستیں مع دوبارہ وزیراعظم بننا تھا اور آج کَل صدر ٹرمپ’’ اَپی‘‘ ہے ۔’’ نااُمیدی اسکی دیکھا چاہیے‘‘ ۔ عمران خان کی ساری تدبیریں سارے منصوبے ، ساری تڑیاں آج تک الٹی پڑ چکی ہیں ۔ جن ساتھیوں پر تکیہ تھا ، ان سے اعتماد اٹھ چکا ہے بلکہ وہ اپنے لیڈر کو جیل میں رکھنے کیلئے ہنر آزماء رہے ہیں ۔ 24 نومبر کی کال عمران خان کی فرسٹریشن اور PTI قیادت پر عدم اعتماد کا شاخسانہ ہے۔ 24 نومبر کا احتجاج ملتوی نہ ہوا تو ناکامی ثبت ہے ۔