ہم فقیروں کیلئے بہت بڑی خوشخبری کی بات ہے۔ سنیں گے تو آپ بھی عش عش کراٹھیں گے آپ کواپنے کانوں پر اعتبار نہیں آئیگا آپ کسی ENT اسپیشلسٹ یعنی گلے،ناک اور کان کے بہت بڑےڈاکٹر کی تلاش میں نکل پڑیںگے۔آپ اپنےکان کی تندرستی کے بارے میں تصدیق کرنے جائینگے۔ یہ سب آپ اسلئےکرینگے تاکہ آپ نے میرے منہ سے جو بریکنگ نیوز سنی ہے وہ نیوز آپ نے درست سنی ہے۔ وہ خبر سو فیصد قابل یقین ہے۔ اس بات میں کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہیں ہے یہ ہم فقیروں کی 75 سالہ کاوشوں کا مثبت نتیجہ ہے۔میںا ٓئین میں تیسویں ترمیم کی بات کررہاہوں میں جانتا ہوں کہ آپ بڑے ہی تیز مزاج تاریخ دان ہیں۔ آپ بجاطور پرفقیر سے پوچھ سکتے ہیں کہ وجود میں آنے کے پہلے چوبیس برسوں تک ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں ابتدائی چوبیس برسوں تک مستند آئین نہیں تھا ہمارے تھونپے ہوئے حکمر ان آئین کے بغیر اللّٰہ بیلی ملک چلارہے تھے۔ انگریزوں کی چھوڑی ہوئی دو کتابیں انڈین پینل کوڈ اور انڈین کرمنل پروسیجر کوڈ کو مدنظر رکھ کر حکومت کرتے تھے۔ برجستوں کا اعتراض درست ہے۔ میں نے کبھی تاریخ کی نفی نہیں کی ہے۔ مودبانہ عرض کردوں کہ فقیروں نے کبھی بھی تاریخی حقائق کےبرعکس بات نہیں کی ہے۔ اپنے وجود میں جھانک کر دیکھنے کے بعد فقیردل کی بات ز بان تک لے آتے ہیں۔ عقیدہ اور اعتماد کی طرح ہم سب اپنے وجودمیں ایک عدد آئین بھی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ آئین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔زندگی چونکہ متحرک ہوتی ہے اسلئے ہم آئین میں تبدیلیوں کےخواہش مند ہوتے ہیں۔ آئے دن اپنی طرف سے اپنے وجود میں رچنے بسنے والے آئین میں کچھ ردوبدل ،کچھ پھیرپھار کرناچاہتے ہیں یہ ہمارا بنیادی حق ہے اگر ہم نے ایسا نہیں کیا یا پھر ایسا کرنے سے گریز کیا تو پھر تمام عمر ہمارے اور آئین کے مابین کشمکش جاری رہے گی اور اکثر اوقات گتھم گتھاہونے سےبھی گریز نہیں کرینگے۔ آئین، پھر چاہے وہ آئین اندرونی ہو یعنی وجودی ہو، یاپھر بیرونی ہو ہم فقیر آئین کو مقدم سمجھتے ہیں۔ایک لمبی چوڑی تمہید کے بعد آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہم کیوں پچھلے 75 چھہتر برسوں سے اپنے آئین میں مثبت تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان 75 چھہتر برسوںمیں وہ شروع کے چوبیس برس بھی شامل ہیں جن میں ہمارا ملک انتخاب سے ماورا سیاستدان اپنی مرضی سے اور انگریز بہادر کے چھوڑے ہوئے دستاویزاوردو کتابوں انڈین پینل کوڈ اور انڈین کرمنل پروسیجر کوڈ کومدنظر رکھ کر چلا رہے تھے۔ ابتدائی برسوں میں ساری گڑ بڑ اسلئے ہورہی تھی کہ قانونی اور انتظامی ڈھانچہ انگریز کاتھا اور انٹرپریٹ یعنی انگریز کے چھوڑے ہوئے قوانین کی تشریح اور توضیح کرنیوالے ہم لوگ مکمل طور پر دیہاتی اور دیہی آدمی تھے۔ اس کوتاہی کے نتائج کو ہم ابوالکلام آزاد کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں انہوں نے تحریری طور پر فرمایا تھا کہ پچیس برس بعد پاکستان ٹوٹ جائیگا۔ مگر اس پیش گوئی سے ایک سال قبل اپنے وجود میںآنے کے چوبیسویں برس پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔اس سانحے کے ملبے کاایک تنکا ہم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس سانحے کا تمام تر ملبہ ابوالکلام آزاد اور انکے ملک پر ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمہ ٹھہراتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ ایسی عبرت انگیز تاریخ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوںمیں ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔زیرک تاریخ دانوں کو اب فقیر کی بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ میں جب بھی پاکستان سے وابستہ کوئی کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہوں تب اس کہانی کی ابتدا 75چھہتر ستتر برسوں سے شروع کرتاہوں۔ ابتدائی چوبیس برسوں کو نظر انداز کرنے سے پاکستان کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی۔ تاریخی المیہ کیساتھ ساتھ یہ المیہ میرا اپنا ذاتی المیہ بھی ہے۔ تب میں اس دنیا میں آچکاتھا اس المناک سانحہ کا میں ایک ادنیٰ سا چشم دیدگواہ ہوں۔ پاکستان کا بننا کوئی مذاق نہیں تھا۔ ہولناک فسادات میں لاکھوں ہندو، مسلمان اور سکھ مرد، عورتیں اوربچے بے دردی سے مارے گئے تھے، اغوا ہوگئے تھے، برباد کردیئے گئے تھے۔ ایسی ہیبت ناک سفاکی آپ کو تاریخ میں نہیںملے گی۔ انیس سو سینتالیس میں،میں اپنے بے انتہا عزیز ساتھیوں اور دوستوں سے بچھڑ گیاتھا۔ بدبخت تاریخ نے دوبارہ خود کو دہرایا۔ انیس سو اکہتر میں، ایک مرتبہ پھر میں اپنے عزیزترین دوستوں اور دل میں بسنے والوں سے بچھڑ گیا تھا۔ ہم ختم ہوجاتے ہیں۔کہانیا ںختم نہیں ہوتیں،ہماری کہانی آپ کسی اور سے سنیںگے۔میں آپ کو خوش خبری سنانا چاہتا ہوں۔ سرکار نامدار نے فقیروں کی مجوزہ ترمیم مان لی ہے۔ہماری تجویزتیسویں آئینی ترمیم ہوگی۔ آئینی ترمیمی تجویز کے چیدہ چیدہ نکتے سن لیجئے۔ فقیر چاہتے ہیں کہ ملک کوکنبہ پروری کی سیاست سے نجات مل جائے و رنہ انڈے کا آملیٹ ایک ہی باورچی خانہ میں تلا جائیگا اور ڈائننگ ٹیبل پر آملیٹ پراٹھے کیساتھ کھایا جائیگا اور ڈکار اسمبلی اجلاس میں دی جائیگی، مجوزہ ترمیم سن لیجئے۔ایک ہی وقت میںساس اسمبلی کی ممبر بن سکے گی یا پھر اس کی بہو۔ ساس اور بہو ایک ہی وقت اسمبلی ممبرنہیں بن سکتیں۔ ملک نے ساس بہو کی چاقی ناچاقی بہت برداشت کرلی ہے۔ اسی طرح سسر اورداماد صاحب بھی ایک ساتھ اسمبلی ممبر نہیں بن سکتے۔اگر سسر اسمبلی ممبر بنے گا تو پھر اس کا داماد اسمبلی ممبرنہیں بن سکے گا۔ باپ کیساتھ اسکے بیٹے، بیٹیاں، نواسے ، نواسیاں اسمبلی ممبرنہیں بن سکتے۔ اگر ماموں اسمبلی ممبر ہے تو پھر چچا اسمبلی ممبر نہیں بن سکتا۔ہم فقیر چاہتے ہیں کہ یہ قوم کبھی کوئی ایسی اسمبلی دیکھے جس میںممبران ایک دوسرے کے سمدھی اور رشتہ دارنہ ہوں۔فقیروں کے یقین کومتزلزل کرنے کیلئےخفیہ خبررساں ایجنسی کے ایک نائب قاصد نے مجھے بتایاہے کہ ووٹ دینے والے ہم لوگ اکثریت میں ہونے کے باوجود ووٹ لینے والے اسمبلی ممبران کی اقلیت کے سامنے بے بس ہیں۔ وہ ہماری ترامیم کو سختی سے مسترد کردینگے۔ اسمبلیاں قیامت تک باورچی خانہ بنی رہیں گی۔