اسلام آباد (رپورٹ: رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں اپنا اضافی نوٹ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ججز کو یاد رکھنا چاہئے اصل طاقت عہدہ نہیں آزادی قائم رکھنا ہے ، ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا مقدمہ سیاسی ٹرائل کی ایک واضح مثال ہے، آمرانہ حکومتیں سیاسی مخالفین کیخلاف سیاسی ٹرائل کا استعمال کرتی ہیں،جج کی بہادری کا اندازہ دباؤ کا مقابلہ کرنے، ثابت قدم رہنے اور عدلیہ کی آزادی کو قائم رکھنے سے لگایا جاتا ہے۔ منگل کے روز جاری 6صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا ہے کہ سیاسی ٹرائل کا مقصد اقتدار پر قبضے کو قانونی حیثیت دینا اور اسے، مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی ٹرائل کا فیصلہ ملزم کے آمرانہ حکومت سے متعلق رویوں اور سرگرمیوں پر منحصر ہوتا ہے، ایسے ٹرائل کو سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے اور سزا دینے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، یہ ٹرائل ملزمان کے سابق ساتھیوں سے حاصل بیانات پر انحصار کرتے ہیں، ملزم کے ساتھیوں کو ملزم کیخلاف ثبوت فراہم کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے، سیاسی ٹرائل آمرانہ حکومتوں کیلئے ایک طاقتور عدالتی ہتھیار کا کام کرتے ہیں، مطلوبہ نتائج کے حاصل کرنے کیلئے ان ٹرائلز میں انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا مقدمہ سیاسی ٹرائل کی ایک واضح مثال ہے جس میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے طریقہ کار اور انصاف کے تقاضوں کی متعدد خلاف ورزیاں کی گئیں۔ انہوں نے قرار دیا کہ آمرانہ ادوار میں ججوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت عہدے پر فائز رہنے میں نہیں بلکہ اپنی آزادی اور اصولوں پر ثابت قدم رہنے میں ہے۔ جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو کیس میں جرأت مندی سے اختلاف کیا اور انہیں الزامات سے بری کر دیا تھا، جبکہ انہوں نے جنرل ضیاء کے جاری کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔