اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) حکومتوں کے خلاف احتجاجی ریلیوں دھرنوں اور لانگ مارچ کے احتجاج کو اکثر رہنماؤں نے محض دھمکی کے طور پر استعمال کیا جس باعث وہ ناکام اور بے نتیجہ ثابت ہوئے۔70کی دہائی میں لانگ مارچ کی احتجاجی سیاست غیر منقسم پاکستان میں مولانا بھاشانی سے موسوم کی جاتی اسلام آباد کی تاریخ میں طویل ترین دھرنا پی ٹی آئی نے 2014 میں دیا جو 126روز جاری رہا . پہلا بڑا دھرنا 1980 میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے دیا اسلام آباد میں آخری اجتماع اور دھرنا جے یو آئی کا تھا سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سابق وزیراعظم کی اہلیہ احتجاجی ریلی اور دھرنے کی قیادت کر رہی ہیں فضل الرحمان نے ایک دن کا دھرنا سپریم کورٹ کے باہر بھی دیا جس میں دیگر راہنماؤں کے علاوہ مریم نواز نے بھی خطاب کیا تھا حکومت کے خلاف لانگ مارچ، دھرنے کے حوالے سے احتجاج کا سلسلہ جو نظر آتا ہے وہ 1980میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں زکٰوۃ و عشر آرڈیننس کے خلاف تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے کیا تھا ان کا موقف تھا کہ اس آرڈیننس میں شعیہ کمیونٹی کو نظرانداز کیا گیا ہے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دیئے جانے والے اس دھر نے میں ہزاروں کی تعداد میں افراد شریک تھے یہ دھرنا چونکہ انتہائی پرامن تھا اس لئے انتظامیہ نے بھی نہ تو انہیں منتشر کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا اور نہ ہی کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کیں اور نہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج ہوا اور صرف دو دن کے اندر ہی حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا اور پھر کم وبیش ایک دہائی تک اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کے مناظر دیکھنے میں نہیں آئے۔ 1992 میں جب وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان اختلافات عروج پر گئے تو اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کیلئے موزوں جانا اور 1990 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو بنیاد بناکر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا۔ غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کردی لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے بحال کئے جانے کے بعد بے نظیر بھٹو نے 1993 میں جولائی میں ایک بار پھر تحریک شروع کردی لیکن اس وقت اسلام آباد میں داخلے کو خاردار تاروں سے بند کردیا گیا تھا، پھر ستمبر 1996 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو جماعت اسلامی کے ملین مارچ کا سامنا کرنا پڑا جنہیں آبپارہ چوک میں روکے جانے پر انہوں نے دو دن تک وہیں دھرنا دیا اور شدید معرکے کے بعد تیسرے روز مظاہرین کو ڈی چوک جانے کی اجازت دے دی گئی جس کے بعد غیر اعلانیہ یقین دہانیاں ملنے پر مظاہرین منتشر ہوگئے اور ایک ماہ بعد سردار فاروق خان لغاری جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف احتجاجی مہم چلائی تھی جس کے اعتراف میں اپنے وفادار ساتھی فاروق لغاری کو بے نظیر بھٹو نے صدارت کے منصب پر فائز کردیا تھا انہوں نے جماعت اسلامی کے احتجاج کو عوامی ردعمل اور دیگر الزامات کی بنیاد پر برطرف کردیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی پریس میں حضرت علی کا یہ قول دہرایا تھا ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘ مارچ 2007 میں اس وقت کے طاقتور ترین صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے منصب سے ہٹانے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور وکلاء برادری نے عدلیہ بحالی کیلئے تاریخی تحریک چلائی، جون 2008 میں پہلا لانگ مارچ جو پارلیمنٹ ہاؤس تک بہ آسانی پہنچ گیا لیکن مقصد یا کامیابی حاصل نہ ہوسکی تاہم 2009 میں میاں نواز شریف کی قیادت میں مارچ شروع ہوا اور راولپنڈی۔ اسلام آباد کنٹینروں کا شہر بنا دیا گیا لیکن یہ مارچ ابھی گوجرانوالہ تک ہی پہنچا تھا کہ 16مارچ 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس افتخار احمد سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرنے کا حکم جاری کردیا اس طرح اس مارچ نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے۔