تفہیم المسائل
سوال: ہمارا امپورٹ ٹریڈنگ (سول پروپرائٹر شپ ) کا کاروبار ہے، اس کاروبار کے حوالے سے پانچ اہم نکات ہیں ، جن کے بارے میں شرعی رہنمائی چاہیے کہ یہ درست ہیں یا نہیں؟
(۱) جتنے کا مال ہم فروخت کرتے ہیں ،انکم ٹیکس بچانے کے لیے سیلز انوائس کم مال کی بناکر دیتے ہیں ۔(۲)ساٹھ فیصد کسٹمرز کو بغیر انوائس مال فروخت کرتے ہیں اور ایف بی آر میں کھاتے درست کرنے کے لیے مارکیٹ میں کمپنیوں کو صرف انوائس دیتے ہیں، مال نہیں دیتے۔
(۳) دوکھاتے بنائے جاتے ہیں، ایک اصل کاروبار کے لیے، دوسرا انکم ٹیکس میں دکھانے کے لیے، جس میں لامحالہ غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔
(۴)ان کھاتوں میں ایسے خرچے بھی لکھے جاتے ہیں ،جس کی انکم ٹیکس قانون میں اجازت نہیں ہوتی۔
(۵) کھاتوں میں جھول ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے آڈٹ پاس کروانے کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ اس سب کے بغیر ہمارا کام توچل سکتا ہے ،لیکن کاروبار اور اس کا نفع آدھا رہ جائے گا، اس میں کتنی گنجائش ہے اور کوئی بہتر طریقہ ہوتو بیان فرمائیں ، (ایک کاروباری شخص ، کراچی)
جواب : اسلامی نظامِ معیشت میں بنیادی اصول سچائی ، امانت ودیانت ہے اور خیانت ، دھوکا ، جعل سازی انتہائی مذموم عمل ہے ، موجودہ دور میں کاروباری لین دین کے معاملات ڈیجیٹل ہوچکے ہیں ، لیکن کاروباری خرید وفروخت کی رسید ایک قدیم عمل ہے ، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ نے واقعتاً اس کمپنی یا امپورٹر سے مال خریدا ہے، لیکن اگر حقیقت میں آپ نے اس سے مال نہیں خریدا ہوتا ،تو یہ فرضی انوائس بنانا ، کسی چیز کی اصل قیمت سے کم قیمت کاغذات میں ظاہر کرنا تاکہ ٹیکس وغیرہ کم دینا پڑے، جھوٹ، دھوکا دہی اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے ،جو کہ ناجائز وحرام ہے۔
اسی طرح ایسی کمپنیاں جن کو آپ مال فروخت نہیں کرتے، انہیں جعلی انوائس بنوا کر کام کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، اس سے بھی بچنا لازم ہے، شرعی اعتبار سے یہ’’ تَعَاوُن عَلَی الأِثْم ‘‘ کے ساتھ ساتھ جھوٹی گواہی کے گناہ کا مرتکب ہورہے ہیں ، اس لیے ایساکرنا جائز نہیں ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ دینے کے قوانین کے تحت آپ کو رعایت مل سکتی ہوتو اُس کے بارے میں معلومات حاصل کریں ،عوامی مفاد کے لیے بنائے جانے والے قوانین کی پاسداری لازم ہے بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہوں، البتہ ظالمانہ ٹیکس کی شریعت حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
کھاتوں میں درج غلط اندراج کو پاس کرانے کے لیے رشوت دینا حرام ہے، حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی ہے، (سُنن ابو داؤد:3580)‘‘۔
البتہ اگر کھاتوں میں اندراج درست ہے، غلط بیانی نہیں کی گئی ، مگر محکمۂ انکم ٹیکس کے متعلقہ افسران وعاملین یہ فرض کرلیتے ہیں کہ آپ نے غلط بیانی کی ہے ،اعدادوشمار میں بھی ردّ وبدل کیا ہے، کیونکہ معاشرے کا عام چلن یہی ہے۔
لہٰذا سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود وہ رشوت کے طلب گار ہوتے ہیں ، ورنہ ان کے پاس ردّ کرنے کے لیے دسیوں حیلے بہانے یا حربے ہوتے ہیں، پس کوئی ناجائز منفعت یا رعایت یا کھاتوں میں ردّوبدل کے لیے تو رشوت دینا کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے، لیکن اپنے جائز حق کی حفاظت اور اپنے آپ کو ظلم وتعدّی سے بچانے کے لیے انتہائی ناگواری کے ساتھ رشوت دے سکتے ہیں ، لیکن عام حالات میں کسی طور پر بھی اس کی اجازت نہیں ہے اورنہ اسے معمول بنانا چاہیے۔
نیز حکومت کوبھی چاہیے کہ وہ ٹیکس کی شرح منصفانہ رکھے تاکہ لوگ بخوشی دینے کے لیے آمادہ ہوں، لیکن اصول یہ نہ بنائیں کہ’’ تم خائن ہو، تاوقتیکہ تم اپنے آپ کو امانت دار ثابت نہ کرو‘‘ ، بلکہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ’’ تم بے قصور ہو تاوقتیکہ تمہارا قصور ثابت نہ ہوجائے ‘‘۔
آپ نے سوال میں لکھا :’’ اس سب کے بغیر ہمارا کام توچل سکتا ہے ،لیکن کاروبار اور اس کا نفع آدھا ر ہ جائے گا ‘‘، حلال اور جائز کمائی تھوڑی بھی ہو تو دنیا میں برکت کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں سرخروئی ونجات کا باعث بنتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’بہت سچے اور دیانت دار تاجر (کا حشر ) انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ،(سنن ترمذی :1209)‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ کہ بعض کاروباری حضرات قانونی بے ضابطگیوں سے دست بردار ہونے پر تو آمادہ نہیں ہوتے ،البتہ یہ چاہتے ہیں کہ ا نہیں شریعت کا تحفظ مل جائے اور مفتی کوئی حیلہ تلاش کرکے اُن کی مقصد براری کرے،یہ شِعار درست نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)