• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص کے ترکے میں مالِ تجارت، سونا، نقد رقم اور مشینیں اس کے ورثاء کے درمیان تقسیم کردی گئیں، کیا کاروباری گاہک بھی تقسیم کیے جائیں گے ، ( علی عمران صدیقی ، کراچی )

جواب: وَرَاثت: یہ عربی اور اردو زبان کا لفظ ہے، جو واؤ کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ بولا جاتا ہے، وراثت کے لغوی معنیٰ :وَرَثَہ، مِیْرَاثْ اور تَرْکَہْ کے ہیں۔ اصطلاح میں وراثت اُس مال، جائداد ، سونا، چاندی، زیورات و دیگر اشیا ء بشمولِ واجب الوصول قرضہ جات (Receivable loans)وغیرہ کو کہا جاتا ہے، جو فوت ہونے والا/والی اپنی مکمل ملکیت میں چھوڑ کر مرے ، چاہے، وہ مال ذاتی کمائی سے حاصل ہوا ہو یا کہیں سے جائز طور پر ہدیۃً (تحفتاً)یا وراثتاً مِلا ہو۔

ڈاکٹر وھبہ الزُّحیلی لکھتے ہیں : ترجمہ:’’لغت میں مال ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جسے ذخیرہ کیا جاسکے اور انسان اُسے عملًا جمع کرے ، خواہ وہ عین (Assets,Goods)ہوں، جیسے سونا ،چاندی ،حیوانات ،نباتات وغیرہ یا اُس سے حاصل ہونے والی منفعت (Usufruct) یا بعض چیزوں کے منافع جیسے سوار ہونا یا رہائش وغیرہ۔ جس چیز کو انسان عملاً جمع نہ کرسکے، وہ مال نہیں ہے، جیسے ہوا میں پرندہ،دریا میں مچھلی، دور دراز جنگلات میں درخت اور زمین میں پوشیدہ(Hiden) معدنیات (Minerals)وغیرہ‘‘ ۔

مَجلَّۃُ الاَحکام العَدَلِیَّہ زیرِ مادّہ:126 میں ہے : ’’مال وہ ہے جس کی طرف انسان کی طبیعت مائل ہو اور جسے حاجت کے لئے ذخیرہ کیاجاسکتا ہو ، خواہ وہ مالِ منقول(Movable) ہو یا غیرِ منقول(Immovable) ۔ اِس تعریف کو ناقص بھی قرار دیا گیاہے ، کیونکہ بعض چیزیں مال ہیں لیکن اُنہیں زیادہ دیر تک، ذخیرہ نہیں کیاجاسکتا جیسے سبزیاں، پھل وغیرہ۔

دیگر فقہائے کرام کے نزدیک ہروہ چیز جوقیمت رکھتی ہو اور اُس کے تَلَف کیے جانے پر ضمان لازم ہو ،وہ مال ہے۔ یہ مال کی قانونی تعریف ہے ( الفقہ الاسلامی وادّلتہٗ ،جلد04، ص:2876-77 مُلَخّصًا)‘‘ ۔

ترکے میں مُتوفّٰی کے مال کو تقسیم کیاجاتاہے ، گاہک مال نہیں ہوتے ، عملی طورپر اس کا تعلق خدمات سے ہے اور گاہک جس کی کارکردگی اور کام سے مطمئن ہو ،اُسی کی طرف مائل ہوتا ہے ، اُسے پابند نہیں کیاجاسکتا۔

یہ مارکیٹنگ کا شعبہ ہے ، ہروارث اپنی اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق گاہکوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہے اور گاہک کسی خانگی تقسیم یا معاہدے کے پابند نہیں ہوتے، وہ اپنی صواب دید سے جس کے ساتھ چاہیں، کاروبار کرسکتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب )

اقراء سے مزید