.آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: میرا شوہر نشے کا عادی ہے، اس وجہ سے وہ گھر میں بھی نہیں آتا، اور نان نفقہ کی کوئی ترتیب بھی نہیں ہے، میرے بھائی بہن ہی میرا خرچہ اٹھارہے ہیں۔ میں نے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا، مگر وہ طلاق دینے پر بالکل بھی راضی نہیں ہے، اسی طرح وہ ہمیں اس بات کی بھی دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں آپ لوگوں کو نقصان پہنچاؤں گا۔ ایسی صورت میں شریعت کی رو سے اس شوہر سے خلاصی کی کیا صورت ہے؟ براہِ کرم اس بارے میں میری راہ نمائی فرمائیں۔
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان واقعۃً درست ہوکہ اس کا شوہر نشے کا عادی ہے اور اس وجہ سے گھر بھی نہیں آتا، اور نہ ہی وہ سائلہ کا نان نفقہ ادا کرتا ہے، بلکہ مزید وہ سائلہ اور اس کے گھر والوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتا ہے تو شریعت کی نگاہ میں وہ سخت ظالم اور مجرم ہے، اگر وہ اپنے ان مظالم سے باز نہیں آتا تو عند اللہ وہ جواب دہ ہوگا اور اپنے کیے کا بدلہ دنیا و آخرت دونوں جہاں میں بھگتے گا۔
تاہم مذکورہ صورت میں فوری طور پر طلاق یا خلع لینے کے بجائے سائلہ کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو نرمی سے سمجھائے، اور جہاں تک ہوسکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کرے، اسی طرح خاندان کے بااثر اور بڑوں کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرےاور ان کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی کوشش کرے کہ وہ شوہر کو سمجھائیں، تاکہ وہ ان بری عادتوں سے باز آجائے اور بیوی کا نان نفقہ اور دیگر حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کا انتظام کرے۔
لیکن اگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود شوہر اپنی ان عادتوں سے باز نہ آئے اور حدود اللہ پر قائم رہتے ہوئے اس رشتے کو باقی رکھنے اور میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بنے تو ایسی صورت میں خاندان کے بڑوں یا علاقے کی پنچائیت کمیٹی کے ذریعے شوہر سے کہا جائے کہ وہ اپنی بیوی (سائلہ) کو طلاق دے دے، تاہم اگر شوہر طلاق بھی نہیں دیتا، اور نہ ہی صلح صفائی پر آمادہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بیوی کے لیے اپنے ایسے شوہر سے خلاصی کا درست طریقہ یہ ہے کہ اولاً بیوی اپنے حقِ مہر سے دست بردار ہوکر شوہر سے اس کی اجازت و رضامندی سے خلع لینے کی کوشش کرے۔
پھر اگر شوہر خلع دینے پر تیار نہ ہو اور بیوی کے ساتھ نباہ اور اس کے ضروری حقوق ادا کرنے پر بھی تیار نہ ہو، تو ایسی سخت مجبوری کی صورت میں عدالت کے ذریعے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ بیوی اپنا معاملہ مسلمان قاضی /جج کی عدالت میں پیش کرے، وہ اپنے دعوے پر شرعی گواہ بھی پیش کرے، پھر متعلقہ قاضی/ جج اس معاملے کی پوری تحقیق کرے۔
اس کے بعد اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر نان نفقہ اور اس کے ضروری حقوق ادا نہیں کرتا، اور اسی طرح وہ نشے کا عادی بھی ہے، تو عدالت کی جانب سے اس کے شوہر سے کہا جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرو یا اسے طلاق دو، ورنہ ہم تمہارے درمیان تفریق کردیں گے۔
اس کے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو (ایک مہینے کی مدت یا جو بھی وقت مناسب ہو، انتظار کا حکم دے، اس کے باوجود پھر بھی شکایت دور نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ) اس عورت کا نکاح اس کے شوہر سے فسخ کردے، اور یہ تفریق شرعاً طلاقِ بائن ہوگی، اگر مذکورہ طریقے پر بیوی عدالت سے تفریق کروا لے تو نکاح ختم ہو جائے گا۔