بڑی دلیل یہی ہے کہ قدرت ہر خطے کیلئے الگ پھل، فصلیں، جڑی بوٹیاں، الگ پرندے، جانور، موسم، ماحول اور انسان بناتی ہے۔ انسان دوسرے علاقوں سے درخت لا کر لگاتے ہیں اور یوں پرندوں اور جانوروں کیلئے خطے کو ماحول دوست نہیں رہنے دیتے۔ اسی طرح انسان ماحول کو اتنا آلودہ کر دیتے ہیں کہ ہجرت مجبوری بن جاتی ہے، اسی طرح حالات کو اس قدر کشیدہ بنا دیتے ہیں کہ انسان کوچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انسانوں کے اپنے ظلم کے باعث معیشت کی کوکھ اتنی خالی ہو جاتی ہے کہ مظلوم انسان، آرزوؤں کا پیٹ بھرنے کیلئے دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ نیو جرسی امریکا میں مقیم عامر بیگ کہنے لگے ’’میرا پورا خاندان امریکا کی امیگریشن لے چکا تھا، میں پاکستان میں تھا کیونکہ مجھے وہاں سیاست کرنا تھی، میں نے ڈاکٹری کرنے کے بعد کلینک کھولا، اس ارادے کے ساتھ کہ دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا، غریب بیمار مریضوں کی دعائیں لوں گا، روزانہ سو سے زائد مریض دیکھتا، کئی غریب مریضوں کو دوا بھی پلے سے دیتا، رزق تو مقدر کا ہے پر وہاں رہ کر سیاست میں بھی حصہ لینے کا ارادہ تھا تاکہ اپنے علاقے کی بھلائی کیلئے کوئی کردار ادا کر سکوں۔ میں بچپن سے تقریری مقابلوں میں حصہ لیتا، پڑھائی میں بھی اچھا تھا، لہٰذا کلاس ٹیچر مجھے مانیٹر بنا دیتا۔ اسکول کی بزم ادب کا جنرل سیکریٹری ہونے کے ناطے ہر پروگرام کو کنڈکٹ کرنے کا شرف بھی مجھے ہی حاصل ہوتا۔ میں نے اسکول کی سطح پر بہت ٹرافیاں جیتیں۔ کالج گیا تو وہاں بھی مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی میری شہرت وہاں پہنچ چکی تھی، لہٰذا جمعیت اور انجمن طلبا اسلام کے ناظمین نے اپنی اپنی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی کیونکہ میں ایک اچھا مقرر تھا، وہ جانتے تھے کہ یہ ایک بنا بنایا لیڈر ہے۔ مختصر عرصہ تک اے ٹی آئی کے بڑوں میں اٹھنا بیٹھنا بھی رہا مگر طبیعت مائل نہ ہو سکی، ان کے کچھ اقدامات نے مجھے ان دونوں جماعتوں کے مدمقابل لا کھڑا کیا، سیاست میں منافقت کو وہیں پرکھ لیا اور وہیں سے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر سیاست کرنی ہے تو کیچڑ میں کنول کی طرح رہنا ہے، پڑھائی مکمل ہونے کے بعد عملی دنیا میں قدم رکھنے پر معلومات میں اضافہ ہوا کہ کہیں فیصلہ غلط تو نہیں کر لیا پر میں فیصلے پر ڈٹا رہا، پورا خاندان ہجرت کر کے امریکا آ چکا تھا مگر میں وہیں تھا، اپنے پیارے ملک میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ لیے کیونکہ والدہ
کی چالیس سال کی عمر میں دل کے عارضہ کی وجہ سے میو ہسپتال لاہور میں وفات پر یہی سوچا تھا کہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کے دکھوں کا مداوا کروں گا، ادھر والد صاحب زور دیتے کہ بیٹے امریکا آ کر بھی شوق پورا کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں ظالم لوگ، انسانوں کے روپ میں بھیڑیے ہیں، مجھے تمہاری طبیعت کا علم ہے، وہاں کوئی بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے، والد صاحب نے اعلیٰ تعلیم کے بہانے امریکا بلا لیا اور پھر شادی کی بیڑی بھی ڈال دی، فکر معاش اور بچوں کے چکر میں یہیں کا ہو کر رہ گیا، جس کا مجھے اکثر افسوس رہتا تھا مگر اب اسلام آباد میں نہتے سیاسی ورکروں پر انسانیت سوز تشدد کو دیکھ کر مرحوم و مغفور پیارے والد کے الفاظ یاد ا ٓگئے ’’بیٹا پاکستان میں ظالم، انسان نما بھیڑیے بستے ہیں، وہاں سے نکل آؤ، تمہارے جیسا بندہ وہاں مس فٹ ہے۔‘‘ میں بھی باپ ہوں، سوچیں! ماں باپ کیسے اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں، کتنی محنت لگتی ہے، ایک چھوٹے سے بچے کو پال پوس کر بڑا کرنے میں، اسے پڑھانے میں، اسے اچھی تربیت دینے میں، اسے کامیاب کروانے میں، اسلام آباد میں شہید ہونے والے نوجوانوں میں کتنے میرے جیسے ذہین و فطین تھے، جن کے والدین نے ان کی اچھی زندگی کیلئے دن رات کوششیں کی ہونگی، دعائیں مانگی ہوں گی، انہیں پاکستان کی سیاست کے خارزار سے بچانے کیلئے باہر کے ملکوں میں چلے جانے کے مشورے تک دئیے ہوں گے، بالکل میرے بہشتی والد کی طرح، اللّٰہ سبحان و تعالیٰ سے شہیدوں کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ ایک دعا اور بھی ہے کہ باری تعالیٰ میرے پیارے پاکستان کو ظلم سے پاک کر دے، میرے ملک کے نوجوان اپنی بھرپور جوانیاں، اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے بیچ ہنسی خوشی گزار سکیں۔‘‘ عامر بیگ کی بات ختم ہوئی تو میں نے عرض کیا، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کی عدم دستیابی ہے، اگر پاکستان میں انصاف ہوتا تو ظلم بہت پہلے ختم ہو جاتا، بدقسمتی یہ ہے کہ 76 برسوں میں لوگوں کو انصاف نہیں ملا، لوگ انصاف کے لئے ترستے رہ گئے اور انصاف نہ ہونے کے باعث ظالم مزید طاقتور ہو گئے۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزا مل جاتی تو سانحہ ڈی چوک نہ ہوتا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بڑی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے مگر انصاف نہ مل سکا۔ پاکستان کی ترقی، انصاف سے مشروط ہے۔ پتہ نہیں کیوں آج محسن نقوی کے کچھ اشعار یاد آرہے ہیں کہ
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر