بیلاروس کے صدر اور ان کے ہمراہ آنے والے 68 رکنی تجارتی وفد کی آمد کے موقع پر بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی وفاقی دارالحکومت پر یلغاراور دھرنا دینے کی کوششیں ناکام بنائے جانے کے بعد ہر طرف سے متضاد دعوئوں اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے ،جس میں سوشل میڈیا پیش پیش ہے جس نے ہر طبقہ فکر کو پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔23تا27نومبر کے دوران صنعت وتجارت کاکام مفلوج ہونے سے معیشت کو صرف ٹیکسوں کے حصول میں ماہ نومبر کی مد میں 303ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔روزانہ کے اجرت داراور کاروباری افرا د اس کے علاوہ ہیں ،جن کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے۔گزشتہ 6روز سے انٹرنیٹ کی رفتار نہ ہونے کی حد تک سست رو ہے،جس سے تیزی سے پھیلتا ہوا آن لائن کاروبار اور فری لانسرز شدید متاثرہوئے ہیں۔تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اپنے عہدےسے، اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضاپی ٹی آئی کی سیاسی اور کور کمیٹی سے مستعفی ہوگئےہیں۔اسد قیصر نے بھی پارٹی چیئرمین بنائے جانے کی اطلاعات کو رد کیا ہے۔امن عامہ اور معمولات زندگی یقینی بنانے کیلئےوفاقی حکومت کے سامنے یہ آپشن ہے کہ خیبرپختونخوامیں گورنر راج نافذ کردیا جائے ،تاہم تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ذرائع کے مطابق حکومت اپنے اتحادیوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایسا کرے گی۔اس بارے میں پیپلز پارٹی کی رائے بہت اہم ہے ،کیونکہ گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔جماعت اسلامی گورنر راج کی مخالفت کررہی ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نےجہاں قومی اسٹاک مارکیٹ کے 100انڈیکس کو ایک لاکھ پوائنٹس سے متجاوز ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے وہیں دوسری طرف وہ اور ان کی ٹیم ان پانچ روز میں ہونے والے قومی معاشی نقصان سے پریشان ہیں۔امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے ہونے والے خصوصی اجلاس میں وزیراعظم کو دھرنوں کی صورت میں احتجاج کرنے والوں کی جانب سے سرکاری املاک اور پولیس ورینجرز کے اہل کاروں پر حملوں کی بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر وزیراعظم نے اسلام آباد پر لشکرکشی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی ہدایت کی ۔انھوں نے سیکورٹی ڈیوٹی پر تعینات اہل کاروں کی شہادت پر رنج والم کا اظہار کیا ۔کریک ڈائون کے بعد پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس مظاہرے میں ان کی جماعت کے کم از کم 20افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیںاور ان کی جماعت اور کے پی حکومت وزارت داخلہ اور وزیرداخلہ کے خلاف عدالتوں کا رخ کریں گی۔اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے آپریشن کے دوران براہ راست فائرنگ یا آتشیں اسلحہ کے استعمال کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ منگل کے آپریشن میں 600مظاہرین گرفتار ہوئے،جس کے بعد ان کی مجموعی تعداد 954ہوگئی ہے۔ خصوصی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نےہدایت کی ہے کہ بلوائیوں سے نمٹنے کیلئے اسلام آباد سمیت ملک بھر میں انسداد فسادات فورس قائم کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی سطح پر پیشہ ورانہ تربیت اور ضروری سازوسامان سے لیس کیا جائے۔انسداد فسادات پولیس کا شعبہ برطانیہ سمیت بہت سے ملکوں میں قائم ہے۔پاکستان میں اس کا قیام زمینی حالات سے مطابقت رکھتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہونا چاہئے کہ دوسرے ملکوں کی طرح احتجاج اور ریلیوں کیلئے مخصوص مقامات کا تعین کرتے ہوئے انھیں مناسب طریقے سے فعال بنایا جائے۔