آج انسانی تہذیب اور اسکی بقا ء کو سب سے بڑا خطرہ اس کرہ ارض پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہے ۔اس درجہ حرارت کی وجہ سے پوری دنیا اور خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں تباہ کن خطرات مرتب ہو رہے ہیں۔صنعتی انقلاب سے پہلے انسانی سماج بڑی حد تک ماحولیات اور قدرت سے ہم آہنگی میں رہتا تھا لیکن صنعتی انقلاب کے بعدبے لگام سرمایہ دارانہ نظام نے اس ہم آہنگی میں دراڑیں ڈال دیں ۔ اس نظام کی بنیاد مارکیٹ پر تھی جو مسلسل گروتھ میں اضافے کا متقاضی تھا ۔یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء اور نمو کا انحصارصرف اور صرف قدرتی وسائل جن میںپہاڑ، جنگلات اور سمندرشامل ہیں، کے بے دریغ استعمال پر ہی ہے۔اسی بنا پر منصور خان نے اپنی کتاب "The Third Curve"میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی شرط ہی کرہ ارض کی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتی ،کیونکہ کرہ ارض پر موجود وسائل لامتناہی نہیں بلکہ وہ جیالوجی کے اصول پر کاربند ہیں، لہٰذا اقتصادی نظام اس کرہ ارض پر اتنا ہی بوجھ ڈال سکتا ہے ،جتنا اس زمین کیلئے قابل برداشت ہو۔اس شرح نمو کو حاصل کرنے کیلئے انسان نے جنگلات کی کٹائی شرو ع کی اور ساتھ ساتھ تیل اور کوئلے کو زمین سے نکال کر صنعتوں اور گاڑیوں میں اسکابے دریغ استعمال شروع کر دیاجس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائڈ اور کاربن مونو آکسائڈ کے اخراج سے فضا آلودہ ہونا شروع ہوئی۔ فضا کو آلودہ کرنے والی ان گیسز کو گرین ہائو س گیسز (GHG)بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف زمین سورج سے مناسب مقدار میں گرمی اپنے اندر جذب کر لیتی تھی اور فالتو حدت واپس فضا میں چلی جاتی تھی لیکن اب فضا میں گرین ہائو س گیسز کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے سورج کی فالتو حدت کے واپس جانے کا راستہ رک گیا ہے جس کی وجہ سے زمین کا اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ، اس کو ہم گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں زمین کی سطح سمندر کے پانی سے نیچے ہوتی جا رہی ہے ۔ چونکہ جنوبی ایشیائی خطے میں 80فیصد بارشیں مون سون کے چار مہینوں میں ہوتی ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کایہ پرانا سائیکل تبدیل ہوتا جا رہا ہے ،یوں بہت ہی کم وقت میں بارشوں کی شد ت کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک کرہ ارض کا ایک تہائی حصہ نہ صرف خشک سالی کا شکار ہو جائے گا بلکہ سمندر کی سطح بھی تیس سے ساٹھ سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گی۔
آج دنیا بھر میںپاکستان کا مضر گیسز کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اسکے باوجود اسکا شمار دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہ ہونے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ گلگت میں دریاکا رخ تبدیل ہونے سے ہزاروں ایکٹرپر محیط انسانی بستیاں غرق یابی کا شکار ہیں ، سندھ اور بلوچستان میں غیر موسمی بارشوں کیوجہ سے سیلاب کی صورت میں تباہی اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں سموگ کے بڑھتے ہوئے مضر اثرات اسکی زندہ مثالیں ہیں۔پاکستان کو ان مضر اثرات سے نمٹنے کیلئے 2030ء تک 348بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔صاف ظاہر ہے کہ پاکستان اکیلا اپنے وسائل کے ساتھ اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔اسے غیر معمولی بارشوں کے پانی سے ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے بارش کے پانی کے نکاسی کے نظام کوبھی جلد از جلد فعال بنانا ہوگا ۔عالمی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کی امداد کے علاوہ ہمارے پالیسی سازوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ بے ہنگم اور غیر مربوط انفراسٹر کچر تعمیر کرکے بارشوں اور آبی گزرگاہوں کے قدرتی راستوں کو تبدیل یا ختم کرنے کی پالیسیوں سے اجتناب کرتے ہوئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو مستقل بنیادوں پر فروغ دیں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے ممکنہ خطرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔
گلوبل وارمنگ کسی ایک ملک یا ایک خطے کی بجائے ساری دنیا کو متاثر کر رہی ہے ، اس لیے اسکا حل بھی گلوبل سطح پر مرتب ہونا چاہئے۔اسی تناظر میںگلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ نے کانفرنس آف پارٹیز (COP)کا ادارہ ترتیب دیا ہے جس کے زیر اہتمام اب تک انتیس کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔حال ہی میں COP29کا سربراہی اجلاس جو آزربائیجان کے شہر باکو میں 26نومبر کو اختتام پذیر ہوا،اس میںمضر گیسز پر قابو پانے کیلئے 2030ء تک ہر سال کیلئے 300ارب ڈالرز مختص کیے گئے لیکن تیسری دنیا کے ممالک نے یک زبان ہوکر ترقی یافتہ ممالک کوگلوبل وارمنگ کا بنیادی سبب قرار دیااور مطالبہ کیا کہ اس رقم کو ایک ٹریلین تک بڑھایا جائے۔یادرہے کہ پیرس معاہد ہ اس کرہ ارض کے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کا ایک بہترین راستہ ہے جس پر2015ء میں 196 ممالک نے دستخط کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ گرین ہائوس گیسزکی مقدار کم کرکے درجہ حرارت کو 1.5ڈگری تک لے آئیں گے، نئے قابل تجدید انرجی سیکٹرز میں سرمایہ کاری کریں گے اور کاربن ٹیکس لگا کر گرین ہائو س گیسز کو کنٹرول کریں گے۔اس معاہدے کی رو سے ترقی یافتہ ممالک ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد کریں گے ۔
آج اس کرہ ارض پرحیاتیات کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک جلد از جلد نیچر سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کریں اور صرف وہی پیداواری ذرائع استعمال کریں جس سے ماحولیاتی نظام درہم برہم نہ ہو۔