ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ برصغیر کے ان عظیم علمائے کرام میں شامل تھے ،جن کی شخصیت ،علم، عمل اور قیادت کا حسین امتزاج تھی۔ 31 مارچ 1926ء کو میرٹھ کے ایک علمی و روحانی خانوادے میں پیدا ہونے والے علامہ نورانی کا نسب والد اور والدہ دونوں جانب سے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا ملتاہے۔ آپ کے والد مبلغ اسلام، سیاح عالم علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ؒایک بلند پایہ عالمِ دین اور محدث تھے، جنہوں نے اپنے فرزند کی تربیت کو ابتدا ہی سے اسلامی اصولوں اور روحانی اقدار کے مطابق پروان چڑھایا۔
اس علمی و دینی ماحول نے علامہ نورانی کے اندر دین کی محبت، علم کی جستجو اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کیا جو ان کی پوری زندگی کا محور رہا۔علامہ نورانی ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اور کم عمری میں قرآنِ پاک حفظ کر لیا۔ اس کے بعد آپ نے عربی، فارسی اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی جو آپ کے علمی سفر کا آغاز تھا۔
آپ نے نیشنل عربک کالج میرٹھ سے ثانوی تعلیم حاصل کی جہاں عربی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد ازاں آپ نے الہ آباد کالج سے گریجویشن کیا اور اسی دوران میرٹھ کے مشہور مدرسہ اسلامی غلام جیلانی میرٹھ سے درس نظامی کی مروجہ و غیر مروجہ کتب پڑھیں۔
آپ کی شخصیت کے روحانی پہلو کو مزید جلا اُس وقت ملی جب آپ نے اپنے والد سے بیعت و خلافت حاصل کی۔ گیارہ سال کی عمر میں آپ نے پہلی بار حرمین شریفین کی زیارت کی، جہاں کے روحانی ماحول نے آپ کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ اسی دوران آپ نے مدینہ منورہ میں ایک سال تک تجوید و قراء ت کی تعلیم حاصل کی۔ اس ابتدائی زیارت کے بعد بھی آپ نے بار بار حرمین شریفین کا سفر کیا اور حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ آپ کو مدینہ منورہ سے خاص اُنسیت تھی ، آپ کا سسرال بھی مدینہ میں تھا۔
علمی و تبلیغی خدمات:۔ آپ کا علمی اور تبلیغی سفر عالمی سطح پر وسیع تھا۔ 1955ء میں آپ نے مصر کا پہلا غیر ملکی تبلیغی دورہ کیا اور وہاں جامعہ ازہر سمیت مختلف جامعات کا تفصیلی مشاہدہ کیا۔ اس دورے میں آپ نے عالم اسلام کے علمی اجتماعات میں شرکت کی اور اپنی علمی بصیرت کا اظہار کیا۔ اس کے بعد آپ نے متعدد دیگر ممالک کے دورے کیے اور مختلف قوموں کے ساتھ روابط استوار کیے۔ 1958ء میں آپ نے مفتی اعظم روس کی دعوت پر روس کا دورہ کیا، جہاں آپ نے مختلف تبلیغی اجتماعات میں شرکت کی۔
1959ء میں آپ نے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا اور وہاں اسلام کی تبلیغ کی۔ ان دوروں کے دوران آپ نے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے اہم کردار ادا کیا۔1962ء میں آپ نے صومالیہ، کینیا اور یوگنڈا کا دورہ کیا اور اسی دوران شمالی نائجیریا کے وزیر اعظم احمد ڈبلیو شہید کے ساتھ بھی آپ کا چار ماہ پر محیط دورہ رہا۔
آپ کی تبلیغی جدوجہد نے آپ کو عالمی سطح پر ایک اہم شخصیت بنا دیا۔ آپ نے 1963ء میں مدینہ منورہ میں حج کی سعادت حاصل کی اور وہاں آپ کی شادی بھی ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے مختلف ممالک کے تبلیغی دوروں کا آغاز کیا جن میں ترکی، جرمنی، برطانیہ، نائیجیریا، ماریشس اور چین شامل ہیں۔
1964ء میں آپ نے کینیڈا کا دورہ کیا اور اس دوران لندن میں قادیانی رسالے کے ایڈیٹر کے ساتھ ایک طویل مناظرہ کیا جس میں آپ کی علمی برتری نے حریف کو شکست دی۔ غرض 1960ء کی دہائی میں جب دنیا میں الحاد اور مادیت کا طوفان عروج پر تھا۔ علامہ نورانی ؒنے اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے۔
آپ کی تقاریر میں دینِ اسلام کی حقانیت کا ایسا دل نشین بیان ہوتا کہ سننے والے آپ کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔ آپ کی گفتگو میں حکمت اور دانائی تھی اور آپ ہمیشہ دلیل و منطق سے بات کرتے ۔ آپ کی یہ صلاحیت آپ کو دیگر علماء سے ممتاز کرتی تھی۔
قادیانی مسئلہ اور پارلیمانی جدوجہد:۔1974ء کا سال آپ کی زندگی کا اہم ترین موڑ تھا۔ اس سال پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک پیش کی گئی۔ علامہ نورانیؒ نے اس تحریک کی قیادت کی اور اپنی مدلّل تقریروں سے اسمبلی کے تمام اراکین کو قائل کیا۔
آپ کی قیادت میں جمعیت علمائے پاکستان نے اس مسئلے کو قانونی طور پر حل کرانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ اس کامیابی کے بعد آپ نے مختلف ممالک کا دورہ کیا تاکہ قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحرک کیا جا سکے۔ آپ کی یہ کوششیں اسلام کے تحفظ کے لیے آپ کے اخلاص اور جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تنظیم المدارس اہل سنت کی بنیاد:۔آپ کی خدمات کا ایک اور نمایاں پہلو مدارسِ اہل سنت کی تنظیم سازی ہے۔ آپ نے تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کی بنیاد رکھی جو اہل سنت کے مدارس کی ایک نمائندہ تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے مدارس کی اسناد کو حکومتی سطح پر تسلیم کرایا گیا جس سے ان مدارس کے طلبہ کے لیے مزید تعلیمی اور معاشی مواقع پیدا ہوئے۔ یہ اقدام آپ کی دوراندیشی اور امت مسلمہ کے تعلیمی مسائل کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے۔
اتحادِ امت اور سیاسی جدوجہد:۔ علامہ شاہ احمد نورانی ؒ نے ہمیشہ اتحادِ امت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ آپ نے عوام کو دینِ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔ آپ نے جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کیے اور ہر قسم کے تشدد اور مذہبی منافرت کو مسترد کیا۔ 2002ء میں آپ کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جو آپ کی سیاسی بصیرت اور عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ نے ہمیشہ اصولوں پر مبنی سیاست کی اور دینِ اسلام کو اپنی سیاسی جدوجہد کا محور بنایا۔
اعلیٰ اخلاق وکردار کاروشن نمونہ:۔علامہ نورانی ؒکی شخصیت میں بے شمار خوبیاں تھیں، جس نے انہیں عوام اور علماء دونوں میں یکساں محبوب بنایا۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو سنتِ رسول ﷺ کی پیروی اور اتباعِ نبوی کا عملی نمونہ تھا۔ آپ کا ہر عمل، فیصلہ اور طرزِ زندگی اس بات کا غماز تھا کہ آپ حقیقتاً سنتِ رسول ﷺ کو سمجھتے اور اس پر عمل پیرا تھے۔
آپ نے ہمیشہ اپنی زندگی سادگی اور وقار سے گزارنے کی کوشش کی اور بے جا آرائش و دنیا داری سے بچنے کی کوشش کی۔ آپ کی شخصیت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ بہت کم بولتے اور زیادہ سنتے تھے، جو ایک عالی مقام شخصیت کی علامت تھی۔ سیاست دانوں کی طرح آپ کا کردار بھی عوامی تھا، مگر آپ کی شخصیت میں ایک انفرادیت تھی کہ آپ نے خانقاہی طرزِ زندگی اور سیاست کو کامیابی کے ساتھ یکجا کیا۔
11 دسمبر 2003ء کو علامہ نورانی ؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کا وصال امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم نقصان تھا ۔ آپ کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کا نمایاں اور عظیم ثابت ہوا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ آپ کی وفات سے امت مسلمہ ایک عظیم دینی و مذہبی رہنما سے محروم ہو گئی، آپ کی شخصیت اور جدوجہد نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایک گہرا اثر چھوڑا اور آپ کا نام تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
بلاشبہ علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کی زندگی دینِ اسلام کی خدمت، امت مسلمہ کے اتحاد اور اصولوں پر مبنی سیاست کا ایک روشن باب ہے۔ آپ کے افکار آج بھی امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔