تفہیم المسائل
سوال: ہمارا گارمنٹس کا کاروبار ہے ، اس کاروبار میں مختلف لوگ ہمارے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہیں ، جس کے لیے درج ذیل معاہدہ کیاجاتا ہے :
(۱)معاہدے کا نفاذ فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک ہوگا ۔فریقِ دوم کی سرمایہ کاری کے مطابق فریقِ اول(کمپنی ) کی کاروبار پر جو بھی تجارت ہوگی ، اس کی کل فروخت پر متوقع منافع 10فیصد ہے ،حقیقی نفع میں سے فریقِ اول (کمپنی)کو5.7فیصد اور فریقِ دوم کو 4.3فیصد اداکیا جائے گا ، جو ماہانہ تقریباً 43000 روپے متوقع ہے ۔(۲)معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد فریقِ دوم کاروبار سے الگ ہوسکتا ہے اور معاہدے کی تجدید بھی کرسکتا ہے۔
علیحدگی کی صورت میں سرمایہ کاری کی رقم بیس لاکھ تک ہونے کی صورت میں ساٹھ دن کے اندر واپس کردی جائے گی ، جبکہ زائد رقم کی واپسی کے لیے کچھ وقت لگ سکتا ہے ۔(۳)فریقِ اول (کمپنی) کسی شرعی عذر کی وجہ سے معاہدے کی پاس داری سے قاصر رہاتو سرمایہ کاری کی رقم کو جلدازجلد اداکرنے کا پابند ہوگا اور اگر اس مال کو کسی قابل نفع کام میں صرف کیا جاچکا تھا، تو آنے والے نفع کے ساتھ سرمایہ کاری کی رقم کو واپس کرنے کا پابندہوگا ۔ (۴)فریقِ دوم اختتام معاہدہ سے پہلے اچانک کاروبار سے الگ ہوتا ہے تو فریقِ اول بیس لاکھ روپے تک 60دن کے اندر واپس کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ اس سے زائد رقم کی واپسی کے لیے کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
لیکن ان ساٹھ دنوں یا زائد دنوں کا نفع نہیں دیاجائے گا، کیونکہ دوران معاہدہ الگ ہونے کی وجہ سے یوں سمجھا جائے گا کہ وہ آئندہ دنوں کے معاہدے میں شامل ہی نہیں ہے ۔(۵)فریقِ اول اس بات کی وضاحت شرعی حکم کے مطابق کرتا ہے کہ تجارت میں تمام تر کوشش کے باوجود خدانخواستہ نقصان ہوجائے تو فریقِ دوم کو اپنے لگائے ہوئے سرمائے کے تناسب سے نقصان برداشت کرنا ہوگا ،نیز اگر فریقِ اول جان بوجھ کر نقصان کرے گا تو وہ خود نقصان کا ذمہ دار ہوگا ،(محمد فیضان ، کراچی)
جواب: ایک سے زائد افراد مشارَکہ میں اپنے اپنے سرمائے کے ساتھ کاروبار میں شریک بن سکتے ہیں اور اسے شرکت العقد (Contractual Partnership)کہتے ہیں، اس کی فقہی تعریف یہ ہے :ترجمہ:’’ دویا دو سے زائد افراد کی اس شرط پر کسی کاروبار میں شرکت کہ وہ دونوں یا سب سرمائے اور نفع( دونوں) میں شریک ہوں گے ، شرکت العقد کہلاتا ہے، (مجلّۃ الاَحکام العدلیہ ،مادّہ: 1329) ‘‘ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :’’ دو شریکوں کے درمیان اصل سرمائے اور منافع میں شرکت کا معاملہ کرنے کا نام شراکت یا مشارکہ ہے ،(حاشیہ ابن عابدین ،جلد13)‘‘۔
علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر مرغینانی حنفی لکھتے ہیں: ’’دوسری قسم شرکتِ عقود ہے اور اس کا رُکن ایجاب وقبول ہے ،وہ اس طرح کہ ایک شخص کہے : میں نے تجھ سے فلاں فلاں چیز میں شرکت کی اور دوسرا کہے : میں نے قبول کیا،شرکتِ عقد میں یہ شرط ہے کہ جس شے پر شرکت ہوئی ،وہ قابلِ وکالت ہو ،(ہدایہ ،جلد4،ص:362)‘‘۔
چلتے ہوئے کاروبار میں کسی نئے فریق کو شامل کرنے سے قبل کاروبار کی کل مالیت اور اُس میں موجود شرکاء کے حصوں کا تعین کرلینا چاہیے ،یہ اس لیے کہ خدانخواستہ نقصان کی صورت میں تمام حصے دار کاروباری سرمائے میں اپنے اپنے حصے کے تناسب سے نقصان برداشت کرتے ہیں ،البتہ کاروبار میں نفع کا تناسب (Porportionate)پہلے سے طے کرنا ضروری ہے ۔ اور نفع کی تقسیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ سرمائے کے تناسب سے ہو ، اس میں کسی کا حصہ زیادہ رکھاجاسکتاہے، مگر نفع کا تناسب بہرحال پہلے سے طے ہونا ضروری ہے، بعد کو کوئی شخص اپنی کسی خصوصیت کی بناپر نفع میں زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
یہ ہوسکتا ہے کہ کسی شریک کا کاروبار میں حصہ کم ہو لیکن شرحِ منافع اُسے زیادہ دی جائے ، کیونکہ وہ کاروبار میں دوسرے شرکاء کے مقابلے میں زیادہ مہارت رکھتاہے یا دوسرے شرکاء کی بہ نسبت زیادہ وقت دیتاہے ، تواُس کے لیے شرح منافع زیادہ طے کی جاسکتی ہے، جیسا کہ فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’المجلّۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں ہے :ترجمہ:’’ کام بھی ان چیزوں میں سے ہے ،جن کی قیمت مقرر کی جاتی ہے یعنی عمل کی باقاعدہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے ،اس لیے یہ جائز ہے کہ ایک شخص کا عمل( اُس کی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے) دوسرے شخص کے عمل سے زیادہ قیمتی قرار پائے۔
مثلاً دو شراکت داروں نے ایک شرکت قائم کی ،سرمایہ دونوں کا برابر تھا اور یہ بھی شرط تھی کہ دونوں کام کریں گے ،اُس کے باوجود اگر معاہدۂ شرکت میں یہ شرط بھی رکھ دی جائے کہ ایک شریک ،منافع میں سے زائد حصہ لے گا، تویہ شرط جائز ہوگی ۔ کیونکہ ہوسکتاہے کہ ایک شریک دوسرے کے بہ نسبت خرید وفروخت میں زیادہ مہارت رکھتا ہو اور اس کاکام زیادہ نفع بخش ہو،(مجلۃ الاحکام العدلیہ ، مادہ:1345)‘‘۔
سوال میں آپ نے لکھا : ’’حقیقی نفع میں سے فریقِ اول (کمپنی)کو5.7فیصد اور فریقِ دوم کو 4.3فیصد اداکیا جائے گا ، جو ماہانہ تقریباً 43000 روپے متوقع ہے ‘‘، معاہدے میں آپ یہ تحریر نہ کریں۔ فریقین میں سے کوئی ایک شریک جو عقدِ شرکت کوختم کرنا چاہتا ہے، اُسے اختیار ہے کہ شرکت کوختم کردے ، دوسرے شرکاء کی رضا مندی ضروری نہیں ،لیکن شرط یہ ہے کہ دوسرے شریک کو شرکت کے فسخ کا علم ہو ، البتہ سرمایہ نکالنے کے لیے کاروبارکی پوزیشن دیکھ کر فریقین باہمی رضا مندی سے کسی مناسب وقت پر اتفاق کرلیں۔
اگر سرمایہ نقد ی کی صورت میں موجود نہ ہو بلکہ لوگوں سے وصول کرنا ہو تو ایک فریق اس بات کا پابند نہیں کہ دوسرے فریق کو رقم اپنی جیب سے ادا کرے ، بلکہ جیسے جیسے رقم آتی رہے گی دونوں فریق اپنا حصہ اس سے لیتے رہیں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جو مال قابلِ تقسیم ہو، وہ آپس میں تقسیم کریں اور جو مال قابلِ تقسیم نہ ہو، اُس کی قیمت لگالی جائے، پھر جسے اُس سامان کی ضرورت ہے ،وہ یہ سامان رکھ کر آدھی قیمت دوسرے کو دے دے۔
جتنا قرض ہے وہ بھی کاروبار کے تمام فریق اپنے اپنے حصے کے تناسب سے ادا کریں گے اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک کاروبار جاری رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا اُس سے الگ ہونا چاہتا ہے تو پورے کاروبار کی قیمت لگا کر دوسرے کو اُس کے حصے کے بقدر رقم دے کر اُس کا حصہ خرید لیا جائے۔
غرض جس وقت کوئی ایک فریق معاہدۂ شراکت کو فسخ کرکے مشترکہ کاروبار سے الگ ہونا چاہتا ہے، تو اس وقت لازم ہے کہ کاروبار کی مالیت طے کردی جائے کہ آیا مال کا تیار اسٹاک کتنا ہے ،خام مال کتنا ہے، مارکیٹ میں واجب الوصول اور واجب الادا رقوم کتنی ہیں کیونکہ کاروبار سے علیحدگی اختیار کرنے والے فریق کو ادائیگی میں وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران کمپنی کا کاروبار تو جاری رہے گا، مگر کاروبار سے علیحدگی کرنے والے فریق کا اس کے آئندہ نفع ونقصان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، وہ صرف علیحدگی کے وقت اپنی طے شدہ مالیت (یعنی اصل مع اس وقت تک کے نفع) کا حق دار ہوگا۔
نیز ممکنہ طورپر ادائیگی کا طریقۂ کار بھی طے کردیا جائے تاکہ آگے چل کر کوئی نزاع پیدانہ ہو اور اس سلسلے میں باہم اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اس شعبے سے وابستہ کاروباری حضرات کو ثالث بنایاجاسکتا ہے۔ ( واللہ اعلم بالصواب )