• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کولوسس سپر کمپیوٹر: جسے چلانے کیلئے یومیہ 10 لاکھ گیلن پانی اور 150 میگاواٹ بجلی درکار ہو گی

دنیا کے امیر ترین شخص اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزد کابینہ میں شامل ایلون مسک جدید اور مستقبل کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور آج کل ان کا ایک ایسا ’سٹارٹ اپ‘ یعنی نیا منصوبہ زیرِ بحث ہے جو انھوں نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے بنایا ہے۔ایکس اے آئی گذشتہ سال کے وسط میں لانچ ہوئی تھی اور اس کے بارے میں ایلون مسک سمیت مارکیٹ میں دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایکس اے آئی بمقابلہ اوپن اے آئی وہ مقابلہ ہے جسے اکثر افراد ایپل کے سی ای او سٹیو جابز اور مائیکروسافٹ کے سی ای او بل گیٹس کے درمیان مسابقت سے تشبیہ دے رہے ہیں۔تاہم یہ کمپنی دنیا کے طاقتور ترین سپر کمپیوٹر کولوسس کے گرد گھومتی ہے جس کے بارے میں پراسراریت کمپنی کے قیام کے ایک سال بعد بھی موجود ہے۔آج اس کمپنی کی لاگت 50 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ مسک نے ٹوئٹر (موجودہ ایکس) کو 44 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔گو یہ کمپنی ابھی پبلک لسٹڈ نہیں ہے لیکن امریکہ میں اس کے پری آئی پی او مارکیٹ میں شیئر پرائس خاصی حوصلہ افزا ہے اور لوگ اس جدید دور کے کرشمے پر سرمایہ لگانے کے لیے بیتاب ہیں۔تاہم کولوسس بنانے کا عمل ہی مصنوعی ذہانت میں کام کرنے والی کمیونٹی کے لیے ایک اہم سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔مسک نے جب یہ کمپنی قائم کی تو انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ ’یہ جاننا ہے کہ حقیقی دنیا کیسی ہے۔‘ایکس اے آئی کی ویب سائٹ پر درج مشن سٹیٹمنٹ میں درج ہے کے ’ایکس اے آئی ایسی کمپنی ہے جو مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور سائنسی ایجادات کی رفتار میں تیزی لا رہی ہے تاکہ ہم اس کائنات کے بارے میں مزید جان سکیں۔‘مسک متعدد انٹرویوز میں یہ بتا چکے ہیں کہ انھوں نے یہ کمپنی اس لیے قائم کی تھی کیونکہ وہ مصنوعی ذہانت کے بے قاعدہ استعمال کے نقصانات سے پریشان تھے۔ایکس اے آئی سپر کمپیوٹر کا جدید ڈیزائن اسے مصنوعی ذہانت سے متعلق تحقیق کرنے کے قابل بناتا ہے۔ مشین لرننگ اور نیورل نیٹ ورکس کے ذریعے کولوسس کو لینگوج ماڈلز (جیسے اوپن اے آئی کی جی پی ٹی سیریز) کو ٹرین کرنے کے لیے استعمال کرے گا اور اس فریم ورک کو مشینوں، روبوٹس اور سائنسی سیمولیشنز کے لیے استعمال کیا جائے گا۔کولوسس کو یوں تو ستمبر 2024 میں میمفس، ٹینیسی میں لانچ کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے حوالے سے پراسراریت اب بھی برقرار ہے۔ ڈیٹا سینٹر سابقہ الیکٹرولکس مینوفیکچرنگ (ایپلائنسز) سائٹ پر موجود ہے جو امریکہ میں جنوبی میمفس انڈسٹریل پارک میں موجود ہے۔ریاست ٹینیسی کی اتھارٹی کی جانب سے اس سائٹ کو 100 میگاواٹ سے زیادہ کی بجلی دیے جانے کی منظوری دی گئی ہے۔جب یہ مکمل کیپیسٹی پر چلے گا تو مقامی یوٹیلٹی کے مطابق اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے یومیہ 10 لاکھ گیلن پانی اور اس کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 150 میگاواٹ بجلی ضرورت ہو گی جو ایک سال کے لیے ایک لاکھ گھروں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔جنوبی ٹینیسی میں ایک دور دراز علاقے میں قائم یہ سہولت اپنی جگہ ایک خفیہ ڈیٹا سینٹر ہے جس کے بارے میں جاننے کے لیے حریف بھی بیتاب ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا یہ واقع وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔اس کمپاؤنڈ میں سرور ’دی ہوم ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ کو دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی جس کے باعث پہلی بار اس سپر کمپیوٹر کو دنیا نے دیکھا ہے۔کولوسس کے نظام میں ایک لاکھ این ویڈیا کے ایچ 100 کے گرافکس پروسیسنگ یونٹس (جی پی یو) نصب ہیں جس کے باعث یہ دنیا کے اہم ترین اے آئی ٹریننگ پلیٹ فارمز میں سے ایک بن جاتا ہے۔تاہم یہ بات جان کر حیرانی ہو گی کہ یہ صرف 19 روز میں نصب کیے گئے کیونکہ ایلون مسک جلد از جلد اس کمپنی کو اپنے حریفوں کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ پورا کمپاؤنڈ صرف 122روز میں مکمل ہوا ہے۔ان ایک لاکھ جی پو یوز کے نصب کرنے کے بعد ایکس اے آئی کی کمپیوٹنگ صلاحیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا اور اس سے ان کی مشکل سوالات کو حل کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی تھی۔یہ رفتار اور کارکردگی اس لیے ضروری ہوتی ہے کیونکہ اے آئی ماڈلز کا حجم اور پیچیدگی کے باعث انھیں بہت بڑی تعداد میں ڈیٹا سیٹس دیے جاتے ہیں اور اس دوران بہت زیادہ کمپیٹویشنل طاقت لگتی ہے۔