• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
برطانیہ میں اسسٹڈ ڈیتھ یا امدادی خودکشی کو قانونی شکل دینے کے لئے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں زوردار بحث ہوئی۔ بحث کے دوران بہت جذباتی ماحول بھی بنتا رہا لیکن بالآخر جب ارکان پارلیمنٹ کی ووٹنگ ہوئی تو وہاں 275 کے مقابلے میں 330 کی بھاری اکثریت نے اس Assisted Death کے بل کو قانون بنانے کے حق میں رائے دی۔ ابھی اس بل کی بحث اور کانٹ چھانٹ کو کئی مہینے لگ جائیں گے ابھی تک کی بحث میں ارکان نے اپنے اپنے دل ہلا دینے والے واقعات سنائے جس کی بنیاد پر ان کا ذہن بنا کہ یہ قانون برطانیہ میں بھی ہونا چاہئے اور لوگوں کو یہاں سے ان ممالک کا رخ نہیں کرنا چاہئے جہاں جاکر وہ اس امدادی خودکشی کی سہولت سے استعفادہ کرتے ہیں۔ ہماری کمیونٹی کے لئے اس ایشو کو سمجھنا اور قائل ہونا بڑا مشکل ہے کیونکہ ہمارے ہاں زندگی ختم کرنے کا اختیار خود کسی انسان کے پاس ہونا حرام ہے۔ برطانیہ میں اس بل میں کہا گیا ہے کہ ہر اس مریض کے پاس اپنی زندگی کو ختم کرنے کا اختیار ہوگا جو ٹرمنلی بیمار ہے یا دوسرے لفظوں میں کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے جہاں سے واپسی بھی ممکن نہیں اور اسکے دردوں کی شدت کم کرنے کا بھی کوئی علاج نہیں۔ اس مریض کی عمر کم از کم اٹھارہ سال سے اوپر ہونی چاہئے اور وہ دماغی طور پر اتنا تندرست ضرور ہو کہ بغیر کسی جبر کے اپنی زندگی ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کر سکتا ہو اور وہ صحت کے اعتبار سے چھ ماہ سے زیادہ نہ جی سکتا ہو، اسے دو گواہوں سے لکھوا کے اپنی اس خواہش کا اظہار کرنا ہوگا اسے دو مختلف ڈاکٹروں کو بھی اس خواہش اور اس کی ضرورت سے مطمئن کرنا لازمی ہوگا۔ موجودہ بل کے تحت مریض کو ہائی کورٹ سے بھی اپنی زندگی ختم کرنے کے حق میں فیصلہ لینا ہوگا۔ اس فیصلے کے بعد بھی مزید 14 دن تک مریض کو جائزہ لینے کا وقفہ رکھنا ہوگا۔ پھر ایک ڈاکٹر اس مریض کے زندگی کے خاتمے کے لئے دوائی تیار کرے گا جو کہ مریض کو خود اپنے ہاتھ سے کھانی یا پینی ہوگی۔ ڈاکٹر یہ دوا اس کے منہ سے حلق میں نہیں اتارے گا۔ اس ایشو پر بحث کے دوران تمام ارکان کو اپنی آزادانہ رائے دینے کا حق حاصل تھا یعنی وہ اس بل پر کسی پارٹی پالیسی کو آگے بڑھانے کے پابند نہیں تھے۔ وزیراعظم اسٹارمر نے بھی اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔ اسی بل پر جب 2015 میں ووٹنگ ہوئی تھی تو اس وقت اس بل کے خلاف 330 ووٹ آئے تھے اتنے ہی ووٹ اس دفعہ اس بل کے حق میں آئے ہیں اور اب یہ بل ہاؤس آف کامنز کی مکمل سپورٹ کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ البتہ بعض ارکان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بل ابھی دو سال کا عرصہ بھی لے سکتا ہے کیونکہ اس حق کو قانونی شکل دینے میں جلد بازی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بل اور اس کی قانون سازی ابھی صرف انگلینڈ اور ویلز کے لئے ہوگی جبکہ اسکاٹ لینڈ کے لئے علیحدہ سے ایک بل زیر غور ہے۔ جن ارکان نے اس بل کی مخالفت کی ہے ان کا موقف تھا کہ لوگوں کو مرنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے گا اس سے بہتر ہے کہ ان کے بچانے کے طریقے اور اسباب پر توجہ دی جائے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خیال اس لئے بھی مضبوط ہوا ہے کیونکہ موجودہ نظام صحت اتنا کمزور ہو چکا ہے اسی لئے لوگ اب امدادی خودکشی کی بات کرنے لگے ہیں۔ ابھی اس بل میں بہت سی خامیاں ہیں اگر کوئی مریض ٹرمنلی بیمار ہے تو ایسے تو اکثر ہوتا ہے کہ ایسے مریض بولنے چلنے یا اپنے برے بھلے کی پہچان اور فرق نہیں بتا سکتے۔ جبکہ اگر انہیں سسٹم میں اس خودکشی کے لئے شامل نہ کیا گیا تو یہ بل بہت ادھورا رہے گا۔ اس موت کی بھی آگے تین اقسام ہیں، پہلی تو ہے اسسٹڈ ڈیتھ جس میں ایسے بیمار آتے ہیں جن کی زندگی کے دن بیماری کی وجہ سے پہلے ہی گنے جا چکے ہیں۔ دوسرے میں امدادی خودکشی جس میں ڈاکٹر مریض کو کہتا ہے کہ وہ اپنی دوا خود کھائے، تیسرا ہے یوتھینیزیا ،اس طریقہ کار میں ذرا زبردستی والا پہلو رہتا ہے یعنی مریض کو زبردستی دوا دے دی جاتی ہے۔ برطانیہ سے اس وقت ہر سال 46 افراد سوئٹزئرلینڈ اسی کام کے لئے جاتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں پچھلے پچیس برسوں میں 571مریضوں کی اسی اسسٹڈ ڈیتھ میں مدد کی ہے۔ اس وقت امریکہ کی پچاس میں سے گیارہ ریاستوں میں اسسٹڈ موت کو قانونی قرار دیا گیاہے۔ کینیڈا میں رضا کارانہ طور پر بھی موت کو گلے لگایا جا سکتا ہے۔ا سپین اور کولمبیا میں بھی اسسٹڈ خودکشی کو قانونی جواز حاصل ہے۔ بلجیم، نیدرلینڈ اور لگژمبرگ میں اس خودکشی کے لئے ٹرمنلی بیمار ہونا لازم نہیں۔ اب برطانیہ میں جس قسم کا بل منظور ہونے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے اس میں قانونی حیثیت سے جان دینا ممکن نہیںرہے گا کیونکہ ہائی کورٹ سمیت تمام شرائط پوری کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس لئے لگتا ہے قانون سازی کے بعد بھی سوئٹزرلینڈ کی اس مارنے سے بے سہولت انسانوں کو بھی یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
یورپ سے سے مزید