• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبستانِ شعر: ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی ....

……ادا جعفری……

ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی

وہی خانہ بدوش امیدیں

وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی

دل کے گنجان راستوں پہ کہیں

تیری آواز اور تو ہے ابھی

زندگی کی طرح خراج طلب

کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی

بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی

زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا

شاخ میں شدت نمو ہے ابھی

ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی

ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے

یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی

آخری ٹیس آزمانے کو

آخری ٹیس آزمانے کو

جی تو چاہا تھا مسکرانے کو

یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں

اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو

سنگریزوں میں ڈھل گئے

آنسو لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے

اک دیا رہ گیا جلانے کو

جلنے والے تو جل بجھے آخر

کون دیتا خبر زمانے کو

کتنے مجبور ہو گئے ہوں گے

ان کہی بات منہ پہ لانے کو

کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے

لوگ ترسے ہیں اک بہانے کو

ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں

دل کی ویرانیاں جتانے کو

حسرتوں کی پناہ گاہوں میں

کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

آس کی بات ہو کہ سانس اداؔ

یہ کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو