ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ جب پہلے بیٹے کی شادی کی تو گھر میں بہو آگئی اور دوسرے بیٹے کی شادی کی تو گھر میں ’’بہو بہو ‘‘ ہوگئی۔ نہیں صاحب! ان کا مذاق اپنی جگہ،نہ تو ہم دو بہوؤں کی آپس کی لڑائی کو کسی آواز سے تشبیہ دے رہے ہیں نہ انھیں بچھوؤں سے ملا رہے ہیں۔
اس تحریر کا عنوان دیکھ کر کچھ لوگوں کو یہ گمان بھی ہوا ہوگا کہ ہم خالوؤں کو بھالوؤں سے ملا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ اردو کے بعض الفاظ کے املا میں بعض لوگ بالخصوص طالب علم الجھن کا شکار ہوجا تے ہیں کہ ان میں کتنے واو(و) آئیں گے اور ہمزہ کہاں لگے گا، بلکہ ہمزہ لگے گا بھی یا نہیں، مثلاً بہوؤں ، بچھوؤں ، آلوؤں ، بھالوؤں ،خالوؤں وغیرہ میں۔
اس سلسلے میں جو اصول اردو املا کے دو بڑے ماہروں یعنی عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خان نے بتائے ہیں ان کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ :
اردو میں جب کوئی اسم اپنی اصلی حالت میں قائم رہتا ہے تو اسے قائم حالت کہتے ہیں اور جب اسم کے بعد کوئی حرفِ ربط آجائے (مثلاً نے، کو، پر، تک، سے) تو اس کی حالت بدل جاتی ہے اور اس بدلی ہوئی حالت کو محر ّف حالت کہتے ہیں۔
اس محرف حالت میں لفظ کا تلفظ اور املا بدل جاتا ہے ،مثلاًاگر کسی مذکر اسم کا آخری حرف الف ہو تو محرف حالت میں واحد کی صورت میں الف کی جگہ’ے‘ آجائے گا اور جمع کی صورت میں الف کی جگہ ’وں‘۔
مثال کے طور پر’بکرا‘ اسم ِ مذکر ہے ۔ اس کی جمع ہے بکرے ۔لیکن لفظ ’ بکرا ‘ کے بعد کوئی حرف ربط آجائے تو واحد ہوتے ہوئے بھی بکرا کے بجاے بکرے بولا جائے گا، مثلاً ایک بکرے نے، ایک بکرے کو ، ایک بکرے پر ( یہاں بکرے کا لفظ جمع نہیں ہے بلکہ واحد ہے اور محرف حالت میں ہے)۔ البتہ جمع کی محرف حالت میں یہ’ بکروں‘ ہوجائے گا ۔
مثال کے طور پر:
واحد: ایک بکرا بھاگا۔ ایک بکرے نے چارا کھایا۔
جمع: دو بکرے بھاگے۔ دو بکروں نے چارا کھایا۔
گویا مذکر اسم کی جمع اگر محرف حالت میں آئے تو اس کے آخر میں سے ’ے‘ نکال کر اس کی جگہ ’وں‘ لگادیتے ہیں۔ جیسے: لڑکا ، لڑکے، لڑکوں۔ مرغا، مرغے، مرغوں۔بڈھا ، بڈھے، بڈھوں۔
اسی لیے جن الفاظ کا آخر ی حرف واو(و) ہو جب ان کی جمع محر ّف حالت میں آئے گی تو اس میں دو(۲) واو (و) لکھے جائیں گے اور دوسرے واو کے اوپر ہمزہ لکھا جائے گا۔ جیسے:
۔آلو سے آلوؤں ،مثلاً :آلوؤں کو اُبال لو۔ (’کو‘ حرف ِ ربط ہے)
۔بھالو سے بھالوؤں ،مثلاً: چڑیا گھر میں بھالوؤں نے بچوں کو ڈرادیا۔
(’نے‘ حرفِ ربط ہے)
۔خالو سے خالوؤں، مثلاً :اس نے اپنے تینوں خالوؤں سے عیدی لی۔ (’سے‘حرف ِ ربط ہے)
اسی طرح :بچھو سے بچھوؤں ، ہندوسے ہندوؤں ، وغیرہ۔ دوسری مثالیں یہ ہیں: آنسوؤں، چاقوؤں، بازوؤں، ٹٹوؤں، زانوؤں، جھاڑوؤں، سادھوؤں، اُلّوؤں، پہلوؤں، جادوؤں، چُلّوؤں، ڈاکوؤں۔