• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام میں اسد خاندان کے 54 سالہ اقتدار کی شام ہو چکی ہے۔ ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں شامی حکومت کے مخالفین سڑکوں پر نکل کر جشن منا رہے ہیں۔دنیا اس پر محتاط رد عمل دے رہی ہے۔لیکن حقائق کچھ اور ہی کہانی بتا رہے ہیں۔ماضی میں امریکہ اور اسرائیل کی مشرق وسطی کے متعلق پالیسی کامیاب سمجھی جاتی رہی ہے۔ گو کہ عرب عوام میں دونوں کے لیے سخت نفرت کے جذبات ہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ بشارالاسد کی شکست سے ایک اور اسرائیل مخالف عرب حکومت گر گئی ہےلیکن یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ شام میں آئندہ آنے والی حکومت بھی اسرائیل دوست نہیں ہوگی۔کیونکہ موجودہ مزاحمتی گروہ بھی اسرائیل مخالف جذبات رکھتا ہے لیکن اسکا جھکاؤ ایران کے بجائے ترکی کی طرف ہو سکتا ہے۔اس گروہ کا پس منظر اسلامی اور جہادی ہے لہذا انکی پالیسیوں کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔دوسرا یہ کہ جب تک اسرائیل گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہے کوئی بھی شامی حکومت اسرائیل دوست نہیں ہو سکتی۔ ایران میں امریکی وفادار حکمراں خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن یکسر بدل گیا۔ایران جو پہلے محض امریکی پالیسی کا، کاسہ لیس ہوا کرتا تھا اس نے امریکہ کے خلاف ایک مزاحمتی کیمپ قائم کیا شام اس کیمپ کا اہم رکن تھا۔اگرچہ شام کی 80 فیصد آبادی شافعی سنیوں پر مشتمل ہے تاہم وہاں کی حکومت اور اقتدار پر ایرانی حمایت یافتہ طبقے کا غلبہ رہا۔اسد خاندان کے دور اقتدار میں مسلک کی بنیاد پر خانہ جنگی کی بنیاد پڑی جس نے نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطی کو متاثر کیا۔ مشرق وسطی کے ایک اہم مضبوط ملک عراق پر امریکہ نے مہلک ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر چڑھائی کر دی اور مشرق وسطی کا یہ خوبصورت ملک دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے نے وہاں کے عوام کو سکھ اور چین تو نہ دیا البتہ بدامنی،معاشی بدحالی،سیاسی تنہائی اور دنیا کی بے اعتنائی نے ایک مستحکم عرب ملک کو عبرت کا نشان بنا دیا۔اسرائیل نے حزب اللہ کے بڑے بڑے لیڈروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا اور پھر شام کی باری آئی۔شام گزشتہ کئی دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار چلا ا ٓرہا ہے اس ملک میں کئی گروہ برسر پیکار ہیں لیکن ان دنوں تمام گروہوں نے اسد حکومت کے خلاف ایکا کیا،شام کے کرد بھی ان کی مدد کو آئے۔

جبکہ داعش کے مسلح گروہ بھی حکومت مخالف مہم کا حصہ بنے۔ماضی میں جب بھی شام کے اندرونی حالات میں کروٹ آتی تو روس اور ایران اس کی مدد کو آتے لیکن ان دنوں حزب اللہ جو کہ اسرائیل کے خلاف برسر پیکار ہے وہ بھی اسد حکومت کی مدد نہ کر سکی جبکہ روس، بھی شامی حکومت کی مدد کو نہ آ سکا۔ جیسے ہی حزب اللہ کی فوجی طاقت میں کمزوری آئی،عوامی حمایت پہلے ہی موجود نہ تھی،اس خلا کو تحریر الشام اور اس کے اتحادی مسلح گروپوں نے پر کیا۔اب شام پر نئے مسلح گروہوں کا قبضہ مکمل ہوچکا ہے بشار الاسد روس فرار ہوچکے ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق ''ملٹری آپریشن اتھارٹی'' کے کمانڈر احمد الشرع جنہوں نے اپنے معروف نام ’’ابو محمد الجولانی‘‘ کی جگہ حقیقی نام ’’احمد الشرع‘‘ استعمال کرنا شروع کیا ہے،متعدد مسلح جنگجوؤں کے ہمراہ دمشق کی اموی مسجد میں داخل ہوئے اور ایک ''وکٹری اسپیچ''دی جس میں انہوں نے شامی عوام سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ "بشار الاسد نے شام کو ایرانی عزائم کے لئے ایک فارم بنا کر چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے فرقہ واریت کو پھیلایا''۔

شام میں وقوع پذیر ہونے والی اس تبدیلی میں عقل والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔ ان واقعات سے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ’’ ہائبرڈ نظام‘‘ کی عمر طویل نہیں ہوتی اور یہ لمبے عرصے تک عوامی خواہشات اور توقعات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ شام کو فرقہ وارانہ جنگ نے بہت کمزور کیا اور سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ جب شام کی سرکاری فوج کمزور ہوئی تو اسی وقت شام میں شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔بطور قوم، تمام سیاسی اختلافات بھلا کر ہمیں متحدہونے کی ضرورت ہے ۔دوسرا یہ کہ ہمارے ہاں فرقہ واریت ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے ایسے مسائل اجاگر کیے جا رہے ہیں جن کا آج کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس بنیاد پر فرقہ وارانہ تقسیم گہری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان سب باتوں سے بڑھ کر ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عوام اور فوج آمنے سامنے نہ آنے پائیں۔اگر فوج کمزور ہوگی تو پاکستان کے استحکام اور سلامتی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ان تینوں مسائل کا حل سیاسی قیادت کے پاس ہے آج بھی عمران خان نواز شریف جناب آصف زرداری اور مقتدرہ مل کر ایک ٹیبل پر بیٹھیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ایسے اقدامات کریں کہ جس سے ملکی سلامتی پر بھی کوئی حرف نہ آئے پاکستان کی فوج بھی اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ملکی سرحدوں کا دفاع کرے اور ملک کا نظام حکومت ان لوگوں کو سونپا جائے جو حقیقی طور پر عوام کے منتخب نمائندے بھی ہوں اور ملک چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ورنہ قدرت کسی کے ساتھ رحم کا معاملہ نہیں کرتی۔اگر فرقہ واریت، سیاسی عدم استحکام،اور فوج کی کمزوری سے شام اور عراق تباہ و برباد ہو سکتے ہیں تو ہمیں بھی خاکم بدہن کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔

تازہ ترین