مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، آپ کے والد کا اسم گرامی عبداللہ اور والدہ کا بجیلہ تھا، والدہ کی جانب نسبت کی بنا ءپر ’’البجلی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’سیراعلام النبلاء‘‘ میں ان کے تذکرے میں ہے کہ جب یہ مسجد نبوی تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادرمبارک اور بعض روایات کے مطابق تکیہ اُنہیں بیٹھنے کے لیے پیش فرمایا۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار بھی تھے، اس بناء پر بھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ اعزاز و اکرام کامعاملہ فرمایا اور صحابۂ کرام ؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی قوم کاسردار، معزز شخص تمہارے پاس آئے تو اس کا اکرام کرنا چاہیے۔‘‘ (معارف الحدیث،کتاب المناقب والفضائل)
ان کے اس تذکرہ وتعارف سے مقصودوہ حدیث ذکرکرناہے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی اور زندگی بھر اُس حدیث مبارکہ پرعمل کواپنامشن بنایا۔رسول اللہ ﷺ کی یہ خصوصیت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’جوامع الکلم‘‘ نصیب فرمائے تھے، یعنی کلمات اور الفاظ مختصر، مگرمعانی انتہائی گہرے اور طویل۔ بخاری ومسلم کی روایت میں ارشاد ہے کہ :’’میری خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جامع کلمات عطا فرمائے ہیں۔‘‘
یعنی آپ ﷺ کافرمان مختصر ہوتا تھا اور معانی بہت۔ چنانچہ حضرت جریربن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں:’’میں نے رسولِ کریم ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا، زکوٰۃ ادا کروں گا، اور ہر مسلمان کے حق میں خیرخواہی کروں گا۔‘‘( مشکوۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الرحمۃ والشفقۃ علیٰ الخلق)
نماز اور زکوٰۃ اسلام کے اہم ترین ارکان میں سے ہیں، اُن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، اور ’’خیرخواہی‘‘ کے ضمن میں بندوں کے تمام حقوق آجاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار یہ ارشاد فرمایا: ’’دین سراسر خیرخواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن النسائی،کتاب البیعۃ،النصیحۃ للامام،)
نیز مسلم شریف میں حضرت تمیم داری ؓ سے روایت ہے:’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے (یعنی نصیحت اور خیر خواہی اعمالِ دین میں سے افضل ترین عمل ہے یا نصیحت اور خیر خواہی دین کا ایک مہتم بالشان نصب العین ہے) ہم نے ( یعنی صحابہؓ نے) پوچھا کہ یہ نصیحت اور خیر خواہی کس کے حق میں کرنی چاہیے؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ کے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، اللہ کے رسولﷺ کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہواکہ دینِ اسلام فقط عبادات یا ذکر و اذکار یا وظائف کا نام نہیں، بلکہ بندوں کے حقوق، ان کے ساتھ خیرخواہی، ان کے لیے خیر اوربھلائی کا چاہنا، یہ بھی دینِ اسلام میں شامل اور اس کا حصہ ہے۔ لوگوں کی تذلیل کرنا یا اُن کے نقصان کے درپے ہونا یا اُن کے ساتھ بدخواہی کا معاملہ رکھنا یہ ایمان کی شان کے خلاف ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کی مذکورہ بالا روایت صاحبِ مشکوٰۃ نے ’’کتاب الآداب، باب الرحمۃ والشفقۃ علیٰ الخلق‘‘ کے تحت ذکر کی ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح کی شرح ’’مظاہرحق‘‘ میں مذکورہ روایت کے تحت علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی ؒ نے حضرت جریربن عبداللہ ؓ سے متعلق ایک عجیب واقعہ لکھاہے،یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرتاہے صحابہ کرام ؓجب اپنے پیغمبر ﷺ سے کسی نصیحت ،کسی حکم کوسنتے توساری عمراس حکم کو مدنظر رکھتے اور ہر موڑ پر اس کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزارتے تھے۔
ساری عمر اپنے دامن سے اس نصیحت کو چمٹائے رکھتے اور ذرہ برابر اس سے اِعراض نہ فرماتے، چنانچہ صاحبِ مظاہرِحق لکھتے ہیں:’’ایک مرتبہ حضرت جریر ؓ نے ایک گھوڑا تین سو درہم کے عوض خرید کیا، انہوں نے بیچنے والے سے کہا: تمہارا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ قیمت کاہے، تم اس کی قیمت چار سو درہم لو گے؟
اس نے کہا: ابن عبداللہ! تمہاری مرضی پر موقوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ: یہ گھوڑا توچار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے، تم کیا اس کی قیمت پانچ سو درہم لینا پسند کرو گے؟ وہ اسی طرح اس کی قیمت سو سو درہم بڑھاتے گئے اور آخرکار انہوں نے اس گھوڑے کی قیمت میں آٹھ سو درہم ادا کیے۔
جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی کروں گا (چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ اس گھوڑے کا مالک وہ قیمت طلب نہیں کر رہا جو حقیقت میں ہونی چاہیے تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اسے زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی)۔‘‘ (مظاہر حق شرح مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت تمیم داری ؓ سے منقول حدیث کی تشریح علماء نے یہ لکھی ہے : ’’اللہ تعالیٰ کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمان لائے ، اللہ کی وحدانیت و حاکمیت کا اعتقاد رکھے، اس کی ذات و صفات میں کسی غیر کو شریک نہ کرے، اس کی عبادت اخلاصِ نیت کے ساتھ کرے، اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت و فرماں برداری کرے، اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کرے ، اس کا شکر ادا کرے اور اس کے نیک بندوں سے محبت کرے اور بدکار سرکش بندوں سے نفرت کرے۔
اللہ کی کتاب کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ،اس میں جو کچھ لکھا ہے اُسے سمجھے اوراس پر ہر حالت میں عمل کرے، تجوید و ترتیل اور غور و فکر کے ساتھ اس کی تلاوت کرے اور اس کی تعظیم و احترام میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ سچے دل سے یہ گواہی دے کہ وہ اللہ کے رسولﷺ اور اس کے پیغمبر ہیں ، ان کی نبوت پر ایمان لائے اور انہیں خاتم الانبیاء مانے، وہ اللہ کی طرف سے جو پیغام پہنچائیں اور جو احکامات دیں، انہیں قبول کرے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے، انہیں اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز رکھے، ان کے اہل بیتؓ اور ان کے صحابہ ؓسے محبت رکھے اور ان کی سنت پر عمل کرے۔
مسلمانوں کے اماموں کے حق میں خیر خواہی کامطلب یہ ہے کہ جو شخص اسلامی حکومت کی سربراہی کر رہا ہو‘ اس کے ساتھ وفاداری کو قائم رکھے، احکام و قوانین کی بے جا طور پر خلاف ورزی کر کے ان کے نظم حکومت میں خلل و ابتری پیدا نہ کرے، اچھی باتوں میں ان کی پیروی کرے اور بری باتوں میں ان کی اطاعت سے اجتناب کرے، اگر وہ اسلام اور اپنی عوام کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں تو انہیں مناسب اور جائز طریقوں سے متنبہ کرے اور ان کے خلاف بغاوت کا علم بلند نہ کرے۔
نیز علماء کی، جو مسلمانوں کے علمی و دینی رہنما ہوتے ہیں خیر خواہی چاہے ان کی عزت و احترام کرے، شرعی احکام اور دینی مسائل میں وہ قرآن و سنت کے مطابق جو کچھ کہیں اس کو قبول کرے اور اس پر عمل کرے، ان کی اچھی باتوں اور ان کے نیک اعمال کی پیروی کرے۔
تمام مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دینی، دنیاوی خیر و بھلائی کا طالب رہے، انہیں دین کی تبلیغ کرے، انہیں دنیا کے اس راستے پر چلانے کی کوشش کرے جس میں ان کی بھلائی ہواور اُنہیں کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کی بجائے نفع پہنچانے کی سعی کرے۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بھی ’’جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے، اس کے مختصر الفاظ حقیقت میں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں اور سعادتوں پر حاوی ہیں اور تمام علوم اولین و آخرین اس چھوٹی سی حدیث میں مندرج ہیں۔