’’میں ہوں کراچی‘‘ روشنیوں کے گیت گاتا، جھلملاتا کراچی، جہاں آج ہوائوں نے نغمگی بکھیر دی، آنکھوں میں نمی بھی ہے اور ماحول کی سانسوں میں خوش بُو بھی۔ دھوپ کی خوش رنگ چمکتی دھاریاں پتا دے رہی ہیں کہ شام ڈھل رہی ہے، چاند طلوع ہو رہا ہے اور اُبھرتے ڈھلتے چاند سورج میں شہر کراچی اپنے وسیع دامن میں مختلف رنگ بکھرے، دیدہ دل فرش راہ کیے ان سب کو خوش آمدید کہہ رہا ہے جو کبھی اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انہیں بھی گلے لگا رہا ہے جو اس سے قصداً ملنے آئے ہیں۔ یہ شام ہے 5 دسمبر 2024ء کی، بہ ظاہر عام دن ہے، لیکن اسے خاص الخاص بنایا آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے۔
یہ ہے چار روزہ 17ویں عالمی اردو کانفرنس جسے ’’جشنِ کراچی‘‘ کا نام دیا گیا۔ڈ ھلتے سورج اور مٹی کی خوشبو نے سامعین کے دلوں پر براجمان ہو کر وقت کو مٹھی میں تھام لیا،ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہے۔روشنیوں میں نہائے اسٹیج پر ہر لمحہ ایک خوبصورت منظر نظرآرہا تھا۔
کانفرنس تو 8دسمبر کواختتام پزیر ہوگئی لیکن اس کے چرچے تاحال ہو رہے ہیں۔ 64 اجلاسوں میں بھر پوررنگ برنگے کھلتے گلاب دیکھے،لیکن کراچی کے ماضی کو بیان کرتے مقررین کو افسردہ بھی دیکھا۔ سندھی، بلوچی، سرائیکی ،پشتو اور پنجابی کی بابت بھی سنا۔تعلیم سے لے کر معشیت تک ،مصوری سے موسیقی تک، اردو کی نئی بستیوں سے لے کر میڈیا کی تاریخ کے حوالےتک بہت کچھ جاننے کے مواقعے ملے، یہی نہیں دیار غیر سے آ ے مہمان کراچی کو کیسا سمجھتے ہیں،کیا جانتے ہیں اس کے بارے میں،ان کے تاثرات کا بھی علم ہوا۔
2008ء میں جب پہلی عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد آرٹس کونسل میں ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ اپنی پیدائش کے 17 سال خوش اسلوبی سے پورے کرکے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ لے گی۔ جوانی تو ویسے ہی مستانی ہوتی ہے،اس کا اندازہ 18 ویں عالمی کانفرنس میں ہوگا۔ احمد شاہ صاحب نے تو نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کر دیاہے، نتیجہ ایک سال بعد ہی آے گا۔
کراچی جو منی پاکستان ہے، جو ہر دل کی آواز ہے، جس کا دامن وسیع ہے، جس کے باسی ہی نہیں دیارِ غیر میں بسنے والے بھی کہتے ہیں، اے کراچی میں تیری آواز ہوں۔ یہاں مسلمہ اہل قلم عالمی کانفرنس کے مہمان ٹھہرے، امریکا، لندن، ترکی، ایران ہی سے نہیں کینیڈا، جرمنی، یو اے ای سے بھی شرکت کے لیے دوڑے چلے آئے، ہر چہرہ خوشی سے دمکتا مسکراتا گراؤنڈ میں داخل ہوتا رہا، ہجوم میں اضافہ ہوتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے میلے کا سا سماں بندھ گیا۔ افتتاح سے قبل پنڈال میں گونجتا نغمہ کراچی، کراچی حاضرین کے جوش و خروش میں بھی اضافہ کر رہا تھا،سامعین چہار سُو پھیلی خوش بو سے لطف اندوز اور احمد شاہ سرخرو ہوئے۔
کہتے ہیں جب زندگی سچے علم و فن سے باہر نکل جاتی ہے تو قاتلوں کا معاشرہ پیدا کرتی ہے۔ جو افراد یا جو نسلیں جسم و جاں کی جمالیات سے اپنے آپ کو ہم آ ہنگ نہیں رکھتیں، ان کی روشنیاں پرچھائیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ان کے تازہ خواب پتھر بن جاتے ہیں اور ان کے دماغوں پر خوش بوئوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
کراچی میں منعقدہ گذشتہ 16 عالمی کانفرنسوں میں روشنیوں نے پرچھائیوں کا روپ دھارانہ تازہ خواب پتھر بنے۔ سترہویں عالمی کانفرنس میں تو یہ بازگشت بھی سنی گئی کہ کراچی نے تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اپنی ایک الگ پہچان بنالی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب کے جتنے رنگ تھے، کراچی نے ان تمام رنگوں کو اپنی ثقافت میں سمیٹ لیا۔
الغرض اس صدی کے ادب کو آرٹس کونسل میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کی صورت میں ایک سائبان ملا، جس کے نیچے سائنس بھی ہے، ٹیکنالوجی بھی، دنیا کی آفتیں بھی ہیں اوردلوں کے درد بھی۔16 کانفرنسوں کا انعقاد افتتاح سے اختتام تک آرٹس کونسل میں ہوا، لیکن سترہویں عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے علاوہ دس سیشن وائی ایم سی گرائونڈ میں ہوئے۔
آرٹس کونسل کے قیام کو 70 سال ہوگئے، افتتاحی تقریب میں سال گرہ کا کیک کاٹا گیا اور ایک ڈاکومینٹری ،جس میں آرٹس کونسل میں ہونے والے ترقیاتی کام، عالمی اردو کانفرنسیں اور امدادی کاموں کو دکھایا گیا۔ کانفرنس میں ملک کے مختلف حصوں کے علاوہ بیرون ملک سے آے ادیبوں، دانش وروں کے علاوہ سفارت کار، وائس چانسلرز ،اسکالرز، تعلیمی ماہرین، اردو زبان و ادب سے جڑے لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء تقریب کو ادبی دنیا کے روشن ستاروں سے ملنے اور سننے کا موقع ملا۔
افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کلام پاک سے ہوا ، مہمان خصوصی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تھے۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبۂ استقبالیہ جبکہ معروف صحافی و دانش ور، غازی صلاح الدین نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ ہمامیر نے نظامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ محمداحمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا، جس شہر نے 17 سال عالمی اردو کانفرنس کی میزبانی کی، اس شہر نے دکھ بھی بہت اٹھائے، قتل، خون اور لاشیں گرتی دیکھیں۔
ہمارے اندرونی، بیرونی دشمن بہت ہیں، وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے آپ کے علم و ادب، آپ کی زبانوں کو ختم کریں، جب تہذیب ختم ہوجاتی ہے تو پھر آپ کی کوئی شناخت نہیں رہتی، ہمارے کلچر، تہذیب و ثقافت اور ہماری زبانوں کی کیا اہمیت ہے، یہ ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ ہم نے سندھی کے علاوہ چھ زبانوں کو شامل کیا۔ ڈائیلاگ کلچر کو فروغ دیا۔ سافٹ ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ سے بڑی سیاست تو دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں۔
ہم نے کوئٹہ میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا تو وہاں اپوزیشن اور حکومت کو ایک ساتھ بٹھایا۔ ان کو بارآور کرایا کہ ڈائیلاگ کتنے ضروری ہیں۔ ہم نے دنیا کو بتایا کہ ہمارے ادیبوں کا معاشرے میں کیا مقام ہے، ان کی کتنی عزت ہے، ہم نے ادیبوں کے چہرے بھی دکھائے اور ان کے کام بھی بتلائے۔ دیکھ لیں آج ہمارے ادیبوں کو دنیا جانتی ہے۔
غازی صلاح الدین نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ، اس شہر کراچی کی جڑیں پاکستان کی تمام ثقافتوں، زبانوں اور تہذیبوں میں پیوست ہیں۔ اس تہذیبی ہمہ جہتی کا ایک مظاہرہ آپ کے سامنے ہے۔ اس شہر کا ارتقائی عمل آرٹس کونسل کے آئینے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم جس کراچی کا جشن منا رہے ہیں، وہ نفرتوں، عداوتوں کے آگ کے دریا کو عبور کرکے اب ایک Inclusive معاشرے کی شکل اختیار کر رہا ہے اور یہی ادب، آرٹ اور کلچر کا اعجاز ہے کہ یہ ایک Plural سوسائٹی کی افزائش کرتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ، آپ اور ہم سب اپنے شہر کراچی سے کس نوعیت کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں، باقی تمام رشتوں کی طرح ایک شہری کے اپنے شہر سے رشتے کی کئی پے چیدگیاں بھی ہیں، اگر یہ رشتہ محبت کا ہے تو اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ نہیں پوچھنا کہ یہ شہر ہمیں کیا دے رہا ہے، یہ بھی بتانا ہے کہ ہم اس شہر کو کیا دے رہے ہیں۔
ہمارا پیشہ، ہماری حیثیت، ہمارا رتبہ کچھ بھی ہو، ایک شہری ہونے کی الگ ذمے داری ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت کچھ ہمارے بس میں نہیں ہے، لیکن صرف شہری ہونا بھی ایک عہدہ ہے اور ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ قانونی، اخلاقی اور تہذیبی قوانین پر عمل کرے۔کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے میں تو یہ کہوں گا کہ ادب اور آرٹ سے دوستی بھی ایک شہری کی ذمے داری ہے۔
آرٹس کونسل نے جو کام کیے ہیں اور جس طرح کراچی کے اجتماعی شعور کو جگایا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں لگائے گئے سرمائے کا منافع ادب اور آرٹ میں لگائے جانے والے سرمائے کے منافع یا ری فارم کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ شرط یہ ہے کہ آپ نفع اور نقصان کا حساب رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ میرا شہر ہے لیکن یہ غلط ہوگا کہ میں یا میری نسل کے لوگ اس شہر پر اپنے مالکانہ حقوق پر اصرار کریں۔ سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جشن کراچی کے نوجوانوں کو افرادی قوت سمجھنےکے عمل کا ایک حصہ ہے۔
معروف مزاح نگار انور مقصود نے حسب روایت تقریب کو گرمائے رکھا۔ دس منٹ کے خطاب میں مسلسل تالیاں بجتی رہیں، قہقہے گونجتے رہے۔ انہوں نے کہا، آج مجھے ایک حکم نامہ ملا ہے کہ، آپ اسلام آباد پر بات نہیں کرسکتے، لاہور، پشاور پر بات نہیں کرسکتے، کچّے کے علاقے پر بات نہیں کرسکتے، صرف کراچی پر بات کرسکتے ہیں۔ اب میں کراچی پر بھی بات کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں کہ سامنے جو اونچی اونچی عمارتیں ہیں، ان کی چھتوں پر کچھ لوگ کھڑے ہوئے نظر آرہے ہیں، جن سے ڈر رہا ہوں۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انور مقصود نے کہا، کراچی عجیب حالات سے گزرا ہے۔ بہت برے دن دیکھے ہیں ہم نے کراچی کے۔۔ بڑا شہر ہے، بڑے لوگ رہتے ہیں یہاں۔ لیکن یہ آگے نہیں جاسکتا، پیچھے جاسکتا ہے، کیوں کہ آگے سمندر ہے۔ خیر اردو کانفرنس ہو رہی ہے، شاہ صاحب کروا رہے ہیں، خود جینز اور جیکٹ پہن کر آئے ہیں۔
یہ اردو کے لیے بری بات ہے۔ انور مقصود نے مزید کہا کہ، آج میں نے بہت دنوں بعد ایک اچھی پاکستانی فلم (آرٹس کونسل کی ڈاکو مینٹری )دیکھی ہے، جس میں شاہ صاحب ہیرو ہیں، ہر سین میں چھائے ہوئے ہیں، یہ فلم کے ’’مولا جٹ‘‘ ہیں۔
مہمان خصوصی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نہایت نپے تلے انداز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، عالمی اردو کانفرنس ہمارے شان دار تہذیبی ورثے اور پاکستان کی پائیدار ترقی کی ثقافتی میراث ہے۔ ادبی سرگرمیوں سے کراچی دنیا کے نقشے میں عالمی ثقافتی مرکز بن کر اُبھر رہا ہے۔
آرٹس کونسل کا ہر میگا فیسٹیول دنیا بھر کے فن کاروں، ادیبوں اور دانش وروں کو آپس میں ملاتا ہے۔ کراچی شہر کے لیے اردو زبان برصغیر کی پہچان ہے۔ اس پر جتنا فخر کریں کم ہے، اس محفل میں بڑی تعداد میں نوجوان ہیں، جو اس ملک کا سرمایہ ہیں وہ اپنا کردار ادا کریں۔
اس سال عالمی اردو کانفرنس ’’جشن کراچی‘‘ کے نام سے منائی جارہی ہے۔ اس شہر کو زبانوں کے لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس شہر کے ہر گلی، محلے کا اپنا انداز ہے، جو ثقافتی رنگوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس لیے آج نہ صرف اردو کا جشن منا رہے ہیں، اس شہر کی ہر اکائی اور زبان کا جشن بھی منا رہے ہیں۔ آرٹس کونسل کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ یہ پاکستان کی فکری، تخلیقی کاوشوں کی علم بردار ہے۔ ہم اپنے ہاتھ سے اپنی زبان سے اپنے شہر کو دنیا بھر کے سامنے خراب کرکے پیش کرتے ہیں۔
میرا نہیں خیال کہ پوری دنیا میں اس سے زیادہ خوب صورت کوئی اور شہر ہے۔ میں نے بھی پوری دنیا گھومی ہے ،کراچی سے خوب صورت شہر نہیں دیکھا۔ نوجوان اس بات کو سمجھیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نہیں اپنے کام سے اپنی ثقافت سے اپنے کلچر سے آگے بڑھیں۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ آرٹس کونسل کی 70 ویں سال گرہ کا کیک کاٹ کر رخصت ہوئے۔
افتتاحی اجلاس کے بعد ’’میں ہوں کراچی‘‘ کے عنوان سے ایک نشست ہوئی، جس میں پاکستان کے سپراسٹار کامیڈین ’’جیو‘‘ کے پروگرام ’’ہنسنا منع ہے‘‘ کے میزبان تابش ہاشمی اور اینکر وسیم بادامی نے شہر کی تاریکی اور معروضی حالات پر دل چسپ گفتگو کی۔
کانفرنس کے دوسرے دن مختلف سیشنز کا آغاز ہوا، جن میں کے ایم سی کی تاریخ سے لے کرکراچی کل اور آج، کتابوں کی رونمائی، یاد رفتگاں وغیرہ شامل ہیں۔
اختتامی اجلاس کے مہمان خصوصی گورنر سندھ، کامران خان ٹیسوری تھے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ، گزشتہ چار روز ہم نے اپنی ثقافت میں رچ بس کر گزارے ہیں۔ اسے ’’جشن کراچی‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہمارا اپنا جو بھی ثقافتی اثاثہ تھا یا جو کچھ بھی ہم نے انفرادی طور پر اپنی ثقافت کے حوالے سے سمیٹا اور سمجھا ہے، آج چار روز بعد ہم خود کو اس حوالے سے زیادہ ثروت مند سمجھتے ہیں۔ ثقافت کے ہر رنگ نے، کلچر کے ہر پہلو نے ہمارے مشام جاں کو معطر کیے رکھا۔
آرٹس کونسل نے ایک ایسے شہر میں جہاں ایک ایک دن میں سو سو لاشیں اٹھتی تھیں، محلوں میں سرحدیں کھینچ دی گئی تھیں، لوگ نسلوں کے حوالے سے تقسیم کردیے گئے تھے۔ تعلیمی ادارے ہفتوں بند رہتے تھے۔ اس شہر میں ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے سے خوف کی فضا کو شکست دے کر لوگوں کو خود اعتمادی فراہم کی۔
لوگوں نے دیکھا اور آرٹس کونسل نے اس کا اہتمام کیا کہ ثقافت اور تہذیب کو معاشرہ سازی کا وسیلہ بننا چاہیے۔ اس کانفرنس نے بھی یہی پیغام دیا ہے اور مجھے یقین ہے آپ سب بھی اس کی توثیق کریں گے کہ کلچر ہمیں راستہ دکھا سکتا ہے، کلچر ہمیں راستہ دکھا رہا ہے۔
نورالہدیٰ شاہ نے اختتامی تقریب سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی والوں کو بہت مبارک ہو کہ وہ دیئے، وہ چراغ جو بوریوں میں ڈال کر بجھا دیے گئے تھے، وہ آرٹس کونسل نے جلا دیے ہیں۔ یہ شہر سب ہی کے لیے راستے کھولے ہوئے ہے۔ یہ تمام زبانیں بولنے والوں کا شہر ہے، یہ سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گولی کسی پر چلے ماں سب کی روئے گی۔ سب کی جان پیاری ہوگی تو یہ پھلتا پھولتا رہے گا۔ کراچی کا جشن اردو زبان بولنے والوں کا ایک تحفہ ہے۔
اختتامی تقریب میں انور مقصود نے اپنے خطاب میں کہا، کراچی میں ایک عمارت ہے، برسوں بعد وہ سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور مہاجروں کو اپنے پاس بلاتی ہے، اس عمارت کا نام ’’آرٹس کونسل‘‘ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ، ایک چھت کے نیچے رہنا سیکھو۔ جو کراچی پہلے تھا، اب آرٹس کونسل کی عمارت بن گئی ہے۔ چار دن یہ کانفرنس ہوتی ہے۔ چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے۔
معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ، ساری دنیا میں یہ ذکر ہو رہا ہے کہ، کتاب، تہذیب، فنون پسپا ہو رہے ہیں، ایسے میں شہر کراچی میں اتنے بڑے جشن کا اہتمام کرنا بہت بڑی کام یابی ہے۔ اتنے لوگ یہاں سے جارہے ہیں، جو نہیں جارہے، ان کو اپنے ملک کے مستقبل پر، آپ پر اور اس بات پر یقین ہے کہ پاکستان، کراچی اور ہمارا سندھ ترقی کرے گا اور بہت کرے گا۔ ہم اس شہر کی تباہی کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہم سب اس کے ذمے دار ہیں، صرف حکومتیں نہیں ہیں۔ صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھیں۔
مہمان خصوصی، گورنر سندھ، کامران خان ٹیسوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احمدشاہ صاحب نے اردوکانفرنس کا انعقاد کیا ہے، یہ وہ زبان ہے جسے رابطے کی زبان کہا جاتا ہے، ہم نے قومی زبان بنایا ، آج اسکولوں میں ہمارے بچے صحیح اردو نہیں لکھ سکتے، صحیح اردو نہیں بولی جاتی، خود احمد شاہ جس طرح اردو بول رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ، یہ کانفرنس سال میں دوبار ہونی چاہیے۔ اردو زبان ہمارے شاعروں کی اور محبت کی زبان ہے۔ یہ چار روزہ کانفرنس سے کام نہیں چلے گا۔
اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنا ہوگی۔ انہیں بتانا پڑے گا کہ ہماری عدالتوں میں بولی تو اردو جاتی ہے، لیکن لکھی انگریزی جاتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں بھی یہی حال ہے۔ اس کے نفاذ کے لیے، ترقی کے لیے کام کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چین، سعودیہ، ترکیہ سب اپنی زبان میں کام کر رہے ہیں۔ آج 77 سال گزرنے کے بعد بھی ہم اس زبان کی اہمیت کی بات کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم زوال پزیر ہیں۔ ہمیں اردو زبان کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا، اس سے علاقائی، صوبائی زبانوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں، جس دن اردو بولنے پر فخر کریں گے، اس دن سے یہ ملک ترقی کرے گا۔
کانفرنس کے چوتھے دن مشاعرہ اور قوالی کے بعد کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔
٭…احمد شاہ صاحب نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ، میں ’’جیو چینل‘‘ کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ عالمی کلچرل فیسٹول جیو کے توسط سے دنیا کے 160 ممالک میں دیکھا گیا، اب جیو عالمی اردو کانفرنس بھی دکھا رہا ہے۔ ٭…وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میرے چند دوستوں نے مجھ سے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی جگہ نہیں بنائی تھی بلکہ ’’جیو جیو‘‘ پاکستان کہہ کر اپنی جگہ بنائی تھی۔ انہوں نے بھی آرٹ اور کلچر کو پروان چڑھایا تھا۔
٭…انور مقصود نے احمد شاہ صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ بولتے تو بہت ہیں لیکن ایسے بولتے ہیں جیسے قوال صبح پانچ بجے بولتے ہیں۔٭…انور مقصود کے خطاب کے دوران سائرن کی آوازیں آنے لگیں توانھوں نے کہا، سی ایم صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں، پھر یہ سائرن کس کے لیے بج رہے ہیں۔ ٭… مقررین کو 5سے دس منٹ بولنے کی اجازت تھی، لیکن احمد شاہ صاحب کے علاوہ تقریباً سب مقررین نے وقت کا خیال رکھا۔
نورالہدیٰ شاہ کو اختتامی اجلاس میں ڈیڑھ منٹ اور ڈاکٹر جعفر کو چھ منٹ بولنے کا کہا گیا۔ نورالہدیٰ شاہ نے کہا، سلام کرکے چلی جاتی ہوں، ڈیڑھ منٹ میں تو یہی ہوسکتا ہے، انھوں نے پانچ منٹ سے کم وقت میں اپنی تقریر سمیٹ دی۔ ٭… چار روزہ کانفرنس، 64سیشن، 13 کتابوں کی رونمائی، دوعالمی مشاعرے اور قوالی کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔ ٭… غازی صلاح الدین نے کہا کہ ہم نے اس شہر کو اپنے بعد آنے والی نسلوں سے مستعار لیا تھا ، اب یہ ضروری ہے کہ ہم آج کے نوجوانوں کو ان کا یہ حق لوٹا دیں۔
٭… گورنر سندھ نے کہا کہ احمد شاہ صاحب کے لیے کہا گیا ہے کہ، وہ عالمی اردو کانفرنس کے بانی ہیں۔ میں نے انور مقصود سے کہا کہ، اس سے پہلے دو بانیوں کا جو حال ہوا ہے، اس کا علم شاہ صاحب کو نہیں ہے۔٭… مہمان خصوصی نے مختلف زبانوں میں علم و ادب میں نمایاں خدمات انجام دینے پر چھ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیے۔ کانفرنس کی نظامت ہما میر نے کی اور چاروں سیشن میں چھائی رہیں۔
کانفرنس میں مختلف موضوعات پر سیشن ہوئے۔ ہر سیشن کا احوال قلم بندکرنا ممکن نہیں ۔ذیل میں چند سیشن کے بارے میں مختصراً ملاحظہ کریں۔
’’پاکستان میں میڈیا کی تاریخ ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں آج کے نوجوانوں کو اُ ن بارہ نوجوانوں کے بارے میں بتایا گیا جنہیں کراچی بدر کردیا گیا تھا۔ جن میں سے معروف صحافی حسین نقی اور نواز بٹ حیات ہیں۔ نقی صاحب نے ایوب خان کے خلاف ہونے والی مضرائیت اور اس وقت کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کردار کے بارے میں ہال میں موجود نوجوانوں جن میں بڑی تعداد کا تعلق بلوچستان یا لیاری سے تھا بشمول طالبات کے، اس زمانے کی تحریکوں اور ’’کراچی بدری‘‘ کے بارے میں بتایا سیشن کی صدارت اپنے زمانے کے معروف سیاسی کارکن سینیٹر مسرور احسن نے کی جب کہ شرکائے گفتگو میں پروفیسر توصیف احمد، مظہر عباس اور میزبانی سابق اسٹوڈنٹس لیڈر اکرم قائم خانی نے کی۔
12 نوجوانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا انہوں نے آگے جاکر اپنے اپنے مزاج اور نظریات کے مطابق سیاست اور صحافت میں کردار ادا کیا۔ آنے والے وقتوں میں کراچی بدری سے بات ’’صوبہ بدری‘‘ تک آئی۔ 70اور 80 کی دہائیوں میں کئی سیاسی رہنماؤں کو یا تو صوبہ بدر کردیا جاتا تھا یا شہر بدر۔ نقی صاحب جو ماشاء اللہ اب 90کراس کر چکے ہیں اور مسرور صاحب کی گفتگو آج کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے حوصلہ افزا تھی ،انہیں اندازہ ہوا ہو گا کہ اپنے نظریات پر ثابت قدم رہنا کیوں ضروری ہوتا ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔
میڈیا کے حوالے سے دو مختلف سیشن ہوئے۔ ایک سیشن معروف کالم نویس اور اینکر سہیل وڑائچ صاحب کی تازہ کتاب ’’ہاتھیوں کی لڑائی‘‘ پر جب کہ دوسرا پاکستان بین القوامی میڈیا کی نظر میں ہوا،ان پردلچسپ بحث ہوئی۔
بی بی سی، وائس آف امریکہ اور وائس آف جرمنی یا DW کے نمائندے اور جیو کے ایم ڈی نیوز اظہر عباس نے اپنے نکتہ نظر سے آج کی صحافت کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور بین القوامی میڈیا اور دنیا کے تضادات پر بھی خاص طور پر ’’غزہ‘‘ کی کوریج اور تبصروں پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی۔
یہ بھی بات سامنے آئی کہ آج سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باوجود پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا یا نجی ٹی وی کو دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ صحافی اویس منگل والا نے اس سیشن کی میزبانی خوب نبھائی۔
دوسرا سیشن میڈیا کے حوالے سے صحافت کی تاریخ پر تھا جس میں مظہر عباس کے علاوہ سہیل وڑائچ، وسعت اللہ خان، محترمہ عاصمہ شیرازی نے تاریخ، پس منظر، جدوجہد ، آج کے حالات اور میڈیا کو درپیش چیلنجز کے حوالے سےکھل کر گفتگو کی۔ میزبانی کے فرائض نوجوان اینکر ابصاکومل نےانجام دیے۔
چوں کہ اس کانفرنس کا بنیادی موضوع کراچی تھا لہٰذا اس سیشن میں تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا، قیام پاکستان کے بعد صحافتی جدوجہد کا آغاز بھی کراچی سے ہوا اور 2 اگست 1950ء کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد بھی یہیں پڑی پھر اس یونین نے آنے والی حکومتوں کے خلاف جب جب صحافت پر پابندی لگی تاریخی جدوجہد کی۔
سہیل وڑائچ کی کتاب ’’ہاتھیوں کی لڑائی‘‘ پر دلچسپ گفتگو عاصمہ نے اپنی میزبانی میں ان سے اور مظہر عباس سے کی جس میں سہیل صاحب نے یہ بھی انکشاف کرڈالا کہ یہ کمپنی بھی زیادہ عرصہ چلتی نظر نہیں آتی۔ اب اس کمپنی سے مراد سہیل صاحب کی موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت تھی یا سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف، اس کا علم ان کے آنے والے کالموں سے ہوسکے گا ۔
٭… ’’اردو نظم میں کراچی کا حصہ‘‘، ’’بچوں کا ادب‘‘، ’’دنیا بدلتی خواتین‘‘ کے عنوان سےبھی سیشن ہوئے۔ اردو نظم میں فاضل جمیلی، رخسانہ صبا، ڈاکٹر تنویر انجم، حارث خلیق اور فہیم شناس کاظمی نے ،پچاس سے ستر کی دہائی میں نظم کی ترقی پر اظہار خیال کیا۔ اس دور کی نظموں میں ہجرت اور اپنی جڑوں سے دُور ہونے کا المیہ نمایاں نظر آتا ہے۔ سیاسی ابتری اور معاشی بحران کا یہ دور ادب میں طلاطم اور ہجرت کے اثرات سے بھرپور تھا۔
بچوں کے ادب کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ بیلا رضا نے تجویز دی کہ آرٹس کونسل میں بچوں کے ادب کی ترویج کے لیے ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔ ماہر تعلیم رومانہ حسین نے بچوں کے لیے ڈرامے اور فلموں کی تیاری سمیت کتب کی اشاعت کی اہمیت پر زور دیا اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں بچوں کے شائع ادب کے مختلف علاقائی زبانوں میں ترجمے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
”ہم ادب کا نوبل انعام جیت سکتے ہیں“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیاگیا ۔ مہمان مقرر نمل یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سفیر اعوان تھے جبکہ نظامت کے فرائض معروف ادیب اقبال خورشید نے انجام دیے۔ انہوں نے سوال کیا اردو ادب میں نوبل انعام جیتنے کی اہلیت موجود ہے؟
ڈاکٹر سفیر اعوان نے جواب دیا کہ نوبل انعام کی 124سالہ تاریخ میں 92 انعامات غیر انگریزی زبانوں کے ادب کو ملے ہیں لیکن یہ زبانیں اس وقت عالمی توجہ حاصل کر سکیں جب ان کے ادب کو انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ اردو ادب کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کے لیے مترجمین کی تربیت اور اعلیٰ معیار کے تراجم کی اشد ضرورت ہے۔
”نئی نسل کی نمائندہ آوازیں“ کے عنوان سے سیشن میں نوجوانوں کے مقبول ترین شاعر علی زریون اور فریحہ نقوی نے شرکت کی اور حاضرین کو اپنی خوبصورت شاعری اور باتوں سے محظوظ کیا، اس موقع پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا جون ایلیا لان نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جو اپنے محبوب شاعر کو سننے کے منتظر تھے، گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فریحہ نقوی نے کہا کہ علی زریون نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی شاعری کی ہے۔ علی زریون نے کہا کہ شعر کے ہر مصرعہ کا ایک آہنگ ہوتا ہے اور ہم شاعر اسی آہنگ کو بحر کہتے ہیں، اس موقع پر علی زریون نے اپنے فارسی اشعار اور اپنا مقبول کلام سن کر سماں باندھ دیا۔
” داستان لکھنو اور دبستان لکھنو“ سیشن میں مصنف مولانا باقر شمس کی کتابوں پر بات کی گئی۔ صدارت افتخار عارف اور نظامت باری میاں فرنگی محلی نے کرا چی اورلندن سے سیف محمود نے آن لائن کی ،جب کہ زہرا نگاہ، عقیل عباس جعفری، فراست رضوی، عابدرضوی،آن لائن امریکا سے تمثال مسعود، کراچی سے حمید شاہ ،انڈیا محمود آباد سے علی خان ،انیس اشفاق نے گفتگو میں حصہ لیا۔ تقریب میں لکھنو کے بارے میں لکھنو شناسی، اچھوتی معلومات ، لکھنو کے مخفی پہلو، متضاد بیانیہ اور دیگرامتیازی سلوک پر بات کی گئی۔
(نوٹ: ریڈیو، ٹی وی ، تھیٹر، فلم کہانی اور فنکاروں سے گفتگو کے سیشن کل جنگ کے اتوار ایڈیشن میں ملاحظہ کریں)