• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے نوحے لکھتے لکھتے بہتوں کے ہاتھ تھک چکے ہیں، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس شہرِ ناپُرساں پر مسائل کا عفریت اپنے گاڑے ہوئے پنجے روزبہ روز مزید سخت کرتا جارہا ہے اور عروس البلاد کا نظام چلانے والے محض اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں پر کیا بیتتی ہے، اُنہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ قصور اس شہر کا بھی ہے کیوں کہ یہ شہر ہے بھی تو سونے کی چڑیا۔

سڑکوں پر حادثات کا اوپر جاتا گراف

جہاں اس شہر کا بے ہنگم پھیلاو جاری ہے، وہاں عروس البلاد میں ہونے والے سڑک کے حادثات کا گراف بھی تیزی سے اوپر کی جانب بڑھ رہا ہےجس کی متعدد وجوہات ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں 65 لاکھ رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 42لاکھ موٹر سائیکلز ہیں اور ہر سال شہر میں تین تاساڑھے تین لاکھ گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کراچی میں ٹریفک کےحادثات میں سات سو سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور ساڑھے سات ہزار سے زائد افراد ان حادثات میں زخمی ہوئے۔ کراچی پولیس کی رپورٹ کے مطابق ان حادثات میں جاں بہ حق ہونے والوں میں ستّاون فی صد موٹر سائیکل سوار شامل ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کے اعداد و شمار ہیں جس سے ملک بھر میں ٹریفک حادثات کی شرح اور ان میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ 

عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 35 ہزار افراد ٹریفک کے حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور پچاس ہزار سے زائد زخمی یا عمر بھرکے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی بڑی گاڑیاں سب سے زیادہ شہریوں کی جانیں نگل لے رہی ہیں اور شہر میں تقریباً پینسٹھ فی صد حادثات بھاری ٹریفک کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔

حکّام کے مطابق حادثات کی متعدد وجوہات ہیں، مثلا روڈ انجینئرنگ کے نقائص، اسٹریٹ لائٹس کی کمی، ٹریفک سگنلز کا نہ ہونا یا ان کا کام نہ کرنا، ڈرائیور کی عدم مہارت اور ٹریفک کےقوانین کی خلاف ورزی، تیز رفتاری، خستہ حال گاڑیاں، لاپروا ڈرائیورز کی غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کی ابتری، اوورلوڈنگ اور ون وے کی خلاف وزری وغیرہ۔ اسی طرح ڈرائیونگ لائسنس کا مسئلہ بھی ہے جو معیاری طریقہ کار کے مطابق جاری نہیں کیے جاتے اور جعلی لائسنس بھی جاری کیے جانے کی شکایات ہیں۔

موٹر سائیکل سواروں کی اموات زیادہ، مگر کیوں؟

کراچی میں پولیس کے مطابق ٹریفک کےحادثات میں جن افراد کی جان جاتی ہے، ان میں سے57فی صد موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل ٹریفک پولیس، کراچی، احمد نواز چیمہ کے مطابق گزشتہ برس موٹر سائیکل سواروں کی اموات ڈمپر یا دیگر بھاری گاڑیوں کے ٹکرانے سے واقع ہوئیں۔ موٹر سائیکل سوار بائیں جانب سے بھاری گاڑیوں کو کراس کرتے ہوئے یا ان گاڑیوں کے انتہائی قریب سے گزرتے ہوئے حادثات کا شکار ہوئے۔

ٹریفک پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق جان سے جانے والے اکثر موٹرسائیکل سواروں کے پاس لائسنس نہیں ہوتا، وہ ہیلمٹ اور پیچھے آنے والی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے بیک ویو مرر بھی استعمال نہیں کرتے، موٹر  سائیکل کی بیک لائٹ درست طور پر کام نہیں کرتی یا غائب ہوتی ہے جس کی وجہ سے سڑک پر جب موٹر سائیکل کو اچانک بریک لگایا جاتاہے تو پیچھے سے آنے والی گاڑی کے ڈرائیور کویہ پتا نہیں چلتا اور اس طرح حادثہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ بھاری گاڑی کا ڈرائیور اونچائی پر بیٹھا ہوتا ہے اور اگر اچانک کوئی موٹر سائیکل قریب سے کراس کرتی ہے تو ڈرائیور کو نظر نہیں آتا اور یوں حادثہ ہوجاتا ہے۔

خطرناک علاقے

حادثات سے متعلق اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر حادثے دو بندرگاہوں، یعنی کراچی پورٹ اورپورٹ قاسم سے نکلنے والی بھاری گاڑیوں کے راستوں سمیت شہر کے صنعتی زونز سائٹ، لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل زونز، نادرن بائی پاس اور حب روڈ پرپیش آتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر روزانہ چار جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں اور ایک جہاز میں 3200 تا3400 کنٹینرز ہوتے ہیں۔ ہر کنٹینرکی نقل و حمل کے لیے ایک ٹرک یا ٹرالر درکار ہوتا ہے۔ چناں چہ کراچی کی بندرگاہ سے روزانہ بارہ تا چودہ ہزار ٹرک، یا ٹرالرز نکل کر اطراف اور شہر کی سڑکوں پر پہنچتے ہیں۔

بھاری گاڑیوں کا مسئلہ

گزشتہ برس بیس دسمبر کو یہ خبر ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچی تھی کہ کراچی میں چوبیس گھنٹوں کے دوران ٹرک اور ڈمپر کی ٹکرز سے سات شہری جان سے چلے گئے۔ اس پر گورنر سندھ، کامران ٹیسوری نے شہر قائد میں ڈمپرز سے شہریوں کی آئے روز اموات کے واقعات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے خود میدان میں آنے کا اعلان کر دیا تھا۔

گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ایک دو سالہ بچی کا سر ڈمپر نے کچل دیا، دن ہویا رات، شہرمیں ڈمپرز سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ گورنر سندھ کا کہنا تھا اب یہ معاملہ نہیں رکا تو ان ڈمپرز کو روکنے کے لیے آپ کو یہ گورنر ڈمپرزکے آگے نظر آئے گا۔

ڈمپرز نہیں رکے تو اس پر وہ ایکشن ہوگا کہ سب یاد رکھیں گے، اگر شہر میں ڈمپرز کسی قانون کے تحت نہیں چل رہے تو ڈی آئی جی ٹریفک کو بتانا ہوگا کہ کیوں قانون پر عمل نہیں ہو رہا ؟ کامران ٹیسوری کا کہنا تھا میں ان معاملات پر عدالت ضرور جاؤں گا۔کیا اس شہر کے بچے لاوراث ہیں جو اس طرح سے مارے جا رہے ہیں؟ بس ہوگئی اب مزید ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

اس حوالے سے وزیر اطلاعات سندھ، شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ کراچی میں جاری تعمیراتی منصوبوں کے لیے بلڈنگ مٹیریل لانے کی غرض سے ڈمپرز کو اجازت ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ پروجیکٹس پر سارا دن کام بند رہے اور رات میں ہو۔ یہ ڈمپرز کےڈرائیور کی ذمے داری ہے کہ وہ رفتار مقرر کریں۔ 

وزیر اطلاعات، سندھ کا کہنا تھاکہ کراچی میں ڈمپرز سے زیادہ مسئلہ ڈرائیورز کا ہے، بدقسمتی سے یہاں لائسنس کا حصول بہت آسان ہے، پورے پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کا عمل سخت کرنا چاہیے۔

دوسری جانب ڈی آئی جی ٹریفک، احمد نواز چیمہ نے جیو نیوز کے پروگرام ’’جیو پاکستان‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں بھاری ٹریفک کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، حادثات میں کمی آئی ہے، بی آر ٹی کے لیے ڈمپرز کی نقل و حرکت رات تک محدود کی ہوئی ہے، ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹر ٹینکرز کو چوبیس گھنٹے چلنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کو بھی اجازت ہے اور ہم ان کی رفتارچیک کرتے ہیں۔

حکّام اور اربابِ حل و عقدکی سنجیدگی

دوتین برس قبل ٹریفک پولیس، کراچی نے شہر میں حادثات کی تعداد کم کرنے کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دست خط کیے تھے تاکہ حادثات کی وجوہات کا تجزیہ کرکے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات اٹھائے جاسکیں، لیکن اس ضمن میں کیا پیش رفت ہوئی ،یہ کسی کو معلوم نہیں۔

کیا حقیقت میں حکّام اور اربابِ حل و عقد اس اہم مسئلے کے بارے میں سنجیدہ ہیں؟ آئیے، اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم درجِ بالا سطور میں یہ جان چکے ہیں کہ بھاری گاڑیاں اس شہر میں ہونے والے ٹریفک کے جان لیوا حادثات کی زیادہ ذمّے دار ہیں تو کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے؟ اس بارے میں حقیقت سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ایک مقدمےکی تفصیلات بتاتی ہیں۔

ایک عدالتی حکم اور پندرہ برس کا قصّہ

جہاں پندرہ برس کے عرصے میں بھی تمام تر کوششوں کے باوجود پرنالہ وہیں گررہا ہو تو لوگ گریہ و نوحہ خوانی نہ کریں تو کیا کریں؟ بعض معاملات میں تو کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجود بہتری کے بجائے بدتری ہی نظر آتی ہے۔ ایسے میں لوگوں کی نظریں اعلی عدالتوں کی جانب اٹھنے لگتی ہیں، کیوں کہ اس شہر کے بارے میں متعدد اہم فیصلے اعلی عدالتوں کی مداخلت کے بعد ہی ممکن ہوسکے ہیں۔

ایسےہی ایک معاملے کی دسمبر 2022 میں سندھ ہائی کورٹ میں سماعتیں ہوئی تھیں۔ تین دسمبر کو مذکورہ عدالت میں شہر میں بھاری ٹریفک کے دن کے اوقات میں داخلے پر پابندی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔ جسٹس ندیم اختر نے پندرہ برس سے عدالتی احکامات پر عمل درآمدنہ کرنے پر سندھ حکومت اور ٹریفک پولیس پر اظہارِ برہمی کیا تھا۔

جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے تھےکہ بھاری ٹریفک کی وجہ سے ہونے والے حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔ بھاری ٹریفک کے شہر میں داخلے پر پابندی کے اوقات کار پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ 

اگر ایسا ہے تو پھر آئی جی سندھ کو بلوا لیتے ہیں۔ گڈز ٹرانسپورٹ اوربھاری ٹریفک پورا دن شہر میں چلتی رہتی ہے۔ لگتا ہے اس شہر میں پولیس ہے ہی نہیں۔ 27 اگست 2007کو حکم دیا تھا کہ بھاری ٹریفک کو دن کے اوقات میں شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے۔ اس موقعے پر سرکاری وکیل نے موقف دیاتھا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیےتھے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ 

عدالت میں موجود تمام افراد جانتے ہیں کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا دعویٰ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس موقعے پر ایس ایس پی ٹریفک نے کہا تھا کہ انشا اللہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرائیں گے۔ 

جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیےتھے کہ انشا اللہ کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا ہوتاہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کو جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دی تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد اور بھاری ٹریفک کے شہر میں داخلے سے متعلق مکینیزم پیش کریں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی آئی جی ٹریفک کو طلب کرلیا تھا اور درخواست کی سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔

آٹھ دسمبر کو سماعت ہوئی تو عدالت نے دن کے اوقات میں شہر میں بھاری ٹریفک پر پابندی کے حکم پر فوری عمل درآمد کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ صبح چھ سے رات گیارہ بجے تک شہر میں داخل ہونے والے بھاری ٹریفک کو روکا جائےاور ان اوقات میں شہر میں داخل ہونے والی بھاری گاڑیوں پر جرمانہ نہیں بلکہ انہیں بند کیا جائے۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ رکاوٹ ڈالنے اور عدم تعاون کرنے والے اداروں کے بارے میں آگاہ کریں۔ 

عدالت نے ہوٹرز والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیاتھا۔عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے حکم میں کہا گیا تھا ہے کہ کراچی میں ہوٹرز والی گاڑیاں، خواہ وہ ایم این ایزیا ایم پی ایز کی ہوں، ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ اس سماعت پر ڈی آئی جی ٹریفک عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ اُن کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی تھی جس پر سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ندیم اختر نے استفسار کیاتھا کہ پہلے والے ڈی آئی جی ٹریفک کہاں ہیں۔

جسٹس ندیم اختر نے استفسار کیا تھا کہ کیا پہلے والے ڈی آئی جی کا تبادلہ ہو چکا ہے اور کیا عدالت سے ان کے تبادلے کی اجازت لی گئی تھی؟ جسٹس ندیم اختر نے ٹریفک پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ محکمہ، عدالت کے احکامات کو کتنی سنجیدگی سے لیتا ہے۔

عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک سے استفسار کیا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بھاری ٹریفک کے بارے میں احکامات کا آپ کو علم ہے؟ ڈی آئی جی ٹریفک نے کہا تھا کہ صرف رات گیارہ سے صبح چھ بجے تک بھاری ٹریفک شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔ ڈی آئی جی نے کہا کہ سپر ہائی وے سے نیو کراچی، نیشنل ہائی وے سے منزل پمپ، کے پی ٹی سے ناردرن بائی پاس تک بھاری ٹریفک جاسکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ اگر ان تین روٹس پر بھاری ٹریفک چلے تو شہر میں ہیوی ٹریفک نظر نہیں آنا چاہیے۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اگر مقررہ اوقات کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو دس ہزار روپے سے زائد جرمانہ کیا جاتا ہے، مگر جرمانے کی رقم کم ہے، اس لیے یہ اتنا مؤثر نہیں ہو رہا۔ ڈی آئی جی نے کہا تھاکہ ہم عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے مزید توجہ دیں گے۔

جسٹس ندیم اختر نے کہا تھاکہ بھاری ٹریفک کی وجہ سے کالج، اسکول، اسپتال، نوکری پریا عدالت جانے والے شہری وقت پر نہیں پہنچ سکتے اور یہ آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔ ڈی آئی جی نے کہا تھا کہ سندھ میں ٹریفک کی خلاف ورزی بہت زیادہ ہے، مگر جرمانہ بہت کم ہے۔ بائیس پہیوں والی گاڑی پر بھی اتنا ہی جرمانہ ہوتا ہے جتنا موٹر سائیکل سوارپر ہوتا ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہم خلاف وزری پر ایف آئی آر درج کریں گے اور انہیں بند بھی کریں گے۔ جسٹس ندیم اختر نے ڈی آئی جی سے کہا تھا کہ داخلہ پوائنٹس پر توجہ دیں، آپ کا کورس اور طریقہ کار صحیح نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ یا تو شہریوں کو کہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر تاریخ اور وقت کے ساتھ وڈیوز اپ لوڈ کریں۔اس موقعے پر درخواست گزار نے کہا تھا کہ کنٹینرز کو کراچی پورٹ سے مقررہ وقت سے پہلے نکلنے نہ دیا جائے۔

سماعت کے دوران جسٹس ندیم اختر نے کہا تھا کہ شہر میں جنگل کا قانون ہے۔ پولیس والی لائٹس، فینسی نمبر پلیٹس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ اس پر ڈی آئی جی نے کہا تھاکہ فینسی نمبر پلیٹ کے ضمن میں پندرہ ہزار گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ جسٹس ندیم اختر نے کہا تھا کہ کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا جیسا یہاں ہو رہا ہے۔

عدالت نے حکم دیاتھا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کی گاڑیاں بند کریں اور رکن قومی اسمبلی ہوں یا صوبائی اسمبلی، کسی کے بھی دباؤ میں نہ آئیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ عوامی آگاہی کے لیے اخبارات میں اشتہار شائع کرائیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھا کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج ہوگا۔

حکّام جاگ گئے

اس سماعت کے بعد حکّام جاگے اور بھاری گاڑیوں کا دن کے اوقات میں شہر میں داخلہ روکنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں ناکے لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ تیرہ مقامات پر بھاری ٹریفک کوروکنے کے لیے ناکہ بندی کی جائے گی۔

ڈی آئی جی ٹریفک احمد نوازکا کہنا تھا کہ ہر ناکے پر کم سے کم چار اہل کار ڈیوٹی دیں گے۔ ہر ناکے پر ایک پولیس افسر چالان مشین کے ساتھ موجود ہوگا۔ اہل کاروں کے یونیفا رم پر باڈی کیمرے بھی نصب ہوں گے، ناکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بھاری ٹریفک کو روکا جائے گا۔ 

مختلف علاقوں میں بھاری ٹریفک پر پابندی کےبارے میں آگاہی کے لیے بینرز بھی لگائے جائیں گے۔ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائےگی۔ تمام ضلعی ایس پی ٹریفک ٹرانسپورٹرز کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ 

ناکوں پر ٹریفک پولیس کی نفری صبح چھ تاشب گیارہ بجے موجود رہے گی۔یہ ناکے ملیر، داودچورنگی، نیو سبزی منڈی، کورنگی گودام چورنگی، کورنگی کراسنگ، سیمینز چورنگی، آر سی ڈی ہائی وے، بورٹ بیسن، بلاول چورنگی، اختر کالونی پر لگائے جائیں گے۔

بائیس دسمبر2022 کو مذکورہ مقدمے کی سماعت ہوئی تو ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے عمل درآمد کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی تھی ۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تمام چیک پوسٹ پر بورڈز آویزاں کردیے گئے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ ایم نائن ٹول پلازاپر کیوں انتظام نہیں کرتے کہ پابندی کے اوقات میں بھاری ٹریفک داخل نہ ہو۔

اس پر ڈی آئی جی ٹریفک نے بتایاتھا کہ ایم نائن ٹول پلازا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک سے استفسار کیا تھا کہ شہر میں داخل ہونے والے بھاری ٹریفک کو روکنے کے لیے کس کو ہدایت جاری کرنا پڑے گی؟ اس پرڈی آئی جی ٹریفک نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ اس کے لیے موٹر وے پولیس کو ہدایت جاری کرنا پڑے گی۔

اس موقعے پر درخواست گزار کے وکیل کا موقف تھا کہ ناردرن بائی پاس، ملیر اور حب سے بھاری ٹریفک آرہا ہے۔ دائر اختیار سے متعلق شہر میں ایشوز موجود ہیں، ڈی آئی جی ٹریفک نے اپنی رپورٹ میں صحیح کہا ہے۔ حادثات میں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کا بھی پتا چلانا چاہیے۔ 

عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک سے استفسار کیا تھاکہ عدالتی احکامات پر مکمل عمل درآمد ہو رہا ہے؟ اس پر ڈی ڈی آئی جی ٹریفک نےکہا تھاکہ جی، بالکل، عدالتی احکامات پر من و عن عمل درآمد ہورہا ہے۔ ریڈ لائن پر کام ہورہا ہے، ڈمپرز وغیرہ وہاں کام کررہے۔

دوہزارکے قریب کیمرے لگے ہوئے ہیں، وہاں سے ٹریفک مانیٹر کیا جارہا ہے۔ سیمنٹ مکسر کی گاڑیوں کا کچھ ایشو تھا، وہ دیر سے نکلی تھیں۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے، بھاری ٹریفک پر پابندی پر عمل درآمد کرائیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے بتایا تھا کہ ڈیڑھ سو اہل کاربھاری ٹریفک کے معاملے پر ڈیوٹی کررہے ہیں۔

جسٹس ندیم اختر نے ڈی آئی جی ٹریفک سے مکالمے میں کہا تھا کہ پریشر ہارن پر آپ کو کوئی کنٹرول ہے ہی نہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے بتایاتھا کہ ہم نے کارروائی کی ہے، ان گاڑیوں کے اڈے پر جاکر پریشر ہارن نکالے ہیں۔428 پریشر ہارن دس روز میں نکالے ہیں۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے کہ رات کودو بجے رہایشی علاقوں سے گزرتے ہوئے پریشر ہارن بجاتے ہوئے جاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ لوگ سو رہے ہوں گے۔

جسٹس ندیم اختر نے پولیس کو سڑکوں پر وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاتھا کہ ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ شہر میں ٹریفک پولیس ہے۔ لوگوں نے فینسی نمبر پلیٹس لگائی ہوئی ہیں، کسی نے نام تو کسی نے ذات لکھی ہوئی ہے۔ قانون صرف کتابوں کی حد تک ہے، آپ کے پولیس والے سے کوئی نہیں ڈرتا۔ 

شہریوں میں قانون پر عمل درآمد کا ڈر ہونا چاہیے۔ ہر جگہ لوگ فینسی نمبر پلیٹس لگاکر گھوم رہے ہیں۔ ہمارے ہائی کورٹ کے کمپائونڈ سے شروع کرلیں، یہاں سے ایسی آپ کو بہت سی گاڑیاں مل جائیں گی۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے بتایا تھا کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے بہت کم ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس ندیم اختر نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیاتھا کہ چیف سیکریٹری سندھ کی رپورٹ کہاں ہے؟ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیےتھے کہ2017سے کیس چل رہا ہے، چیف سیکریٹری کہہ رہے ہیں کہ کام ہورہا ہے۔ چیف سیکریٹری سندھ کو بتادیں کہ ہمیں نتائج چاہییں۔ سماعت کا حکم نامہ آج ہی جاری کیا جائے گا۔

اس سے پہلے کی کہانی

ٹریفک پولیس کارکردگی دکھانے یا حکّامِ بالا کو خوش کرنے کے لیے کبھی کبھار کوئی مہم شہر میں چلالیتی ہے ، لیکن اسے چلانے کا انداز فرسودہ اور غیر موثر ہوتا ہے، پھر یہ کہ صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ اہل کار صرف خانہ پُری کررہے ہیں، کیوں کہ بیش تر اہل کار یہ کام کرنے کے بجائے کرنسی نوٹوں کی خوش بُو سونگھنے کو اپنا اصل کام سمجھتے ہیں اور اسی کام میں جی جان سے لگے رہتے ہیں۔کراچی کی ہر سڑک ،ہر چورنگی دن، رات ہُن برساتی ہے جس سے نیچے سے لے کراوپر تک،محکمے کے زیادہ تر افراد مستفید ہوتے ہیں۔

کبھی کچھ غیر معمولی ہوجائے تو افسران عوامی دباو سے نکلنے کے لیے ہنگامی طور پر کوئی حکم جاری کردیتے ہیں، لیکن چند یوم میں ہی اسے اپنے ہی محکمے کے اہل کار غیر موثر بنادیتے ہیں۔ 

بھاری ٹریفک کے شہر کی اندرونی سڑکوں پر داخلہ ممنوع قرار دینے کی پابندی پر عمل درآمد کا دورانیہ بھی چند یوم سے زیادہ نہیں تھا، کیوں کہ ڈمپرز، ٹریلرز اور ٹینکرز مافیاز وغیرہ اس شہر سے روزانہ اربوں روپے کماتی ہیں اور متعلقہ تمام سرکاری محکموں کو باقاعدگی سے ’’پتّی‘‘ جاتی ہے۔ اور ایسا ماضی میں تواتر سے ہوتا رہا ہے۔ لوگ مرتے ہیں تو مریں، بھلا بتائیے تو ، کون بے وقوف ہو گا جو اس’’ رِم جھم‘‘ کا مزہ لینا چھوڑدے گا۔

ہر پانچ منٹ میں ایک حادثہ

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ میں سڑک کے حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یاشدید زخمی ہوکر معذورہو جاتا ہے۔ وزارت مواصلات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہےجہاں سڑک کے حادثے کے شکار افراد موقعے پر ہی دم توڑ دیتےہیں۔ 

یاد رہے کہ روڈ سیفٹی کے حوالے سے بہترین ممالک وہ ہیں جہاں حادثے کے شکار افراد تیس دن میں انتقال کرتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو روڈ سیفٹی کے حوالے سے بدترین ممالک کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں ہر 10لاکھ میں سے 14افرادسڑک کے حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

ہوٹر، تیز روشنیاں، نیلی پیلی بتّیاں، فینسی اور جعلی نمبر پلیٹس 

کراچی میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹریفک کے قوانین نافذ ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو ان کی خلاف ورزی کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ سگنل توڑنا، ون وے کی خلاف ورزی کرنا ،لائسنس کے بغیر ہر قسم کی گاڑی چلانا وغیرہ معمول کی بات ہے۔ لیکن چار، چھ برس سے ایک بہت زیادہ خطرناک خلاف ورزی سامنے آئی ہے۔

اب شہر میں چلنے والی زیادر تر موٹر سائیکلز اور موٹر کاروں میں عام ہیڈ لائٹس کے بجائے ایل ای ڈی لائٹس نصب نظر آتی ہیں جو ٹریفک کے قوانین کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو گاڑی چلاتے وقت سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آئے روز ٹریفک کے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔

پہلے یہ وبا موٹر کاروں تک محدود تھی، لیکن جلد ہی یہ موٹر سائیکلز تک بھی پہنچ گئی۔ بہت تیز اور بہت زیادہ چمک دار ہونے کی وجہ سے یہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کےڈرائیورز کو تقریبا اندھا کردیتی ہیں جس کی وجہ سے حادثات کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ 

ٹریفک پولیس کے حکام کے مطابق وقتا فوقتا اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اورجرمانے بھی کیے جاتے ہیں۔ سڑکوں کا جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایل ای ڈی لائٹس والی گاڑیوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی ہی جارہی ہے، حالاں کہ ہمارے ٹریفک کے قوانین کہتے ہیں ہیڈ لائٹ گاڑی کی باڈی سے دو تا ڈھائی فیٹ کی اونچائی پر نصب ہونی چاہیے اور اس کی روشنی پانچ سو میٹر سے آگے نہیں جانی چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان لائٹس کے خلاف کوئی بھی کارروائی اس وقت تک کام یاب نہیں ہوسکتی جب تک ان دکانوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی جہاں یہ آسانی سے دست یاب ہیں۔ یہ ہی حال ہوٹرز کا ہے، لیکن کوئی پوچھنے والا نظر نہیں آتا۔

ہائی انٹینسٹی ڈسچارج (ایچ آئی ڈی / ایل ای ڈی) لائٹس کا معاملہ ہو ،ڈبل کیبن پک اپس میں سوار محافظو ں کی جانب سے اسلحے کی نمائش اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیورز کو راستے سے ہٹو، گاڑی کو جگہ دو، کہہ کر ہراساں کرنے، نجی، حتی کہ تجارتی نمبر پلیٹس کی حامل گاڑیوں میں نیلی پیلی بتّی اور ہوٹرز لگا کر دھونس اور دھمکی جمانے یا فینسی اور جعلی نمبر پلیٹس لگاکر گھومنے والے با اثر افرادکا معاملہ ہو، یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ افراد کا تعلق کسی اور مخلوق سے ہے جن پر پاکستان کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔