• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا تھا ’’ایک صوبے کا گورنر تبدیل ہو رہا ہے، وہ ایسا گورنر ہے جو پیسے بنا رہا ہے، جو یہ کر رہا ہے، وہ کر رہا ہے‘‘۔ قصہ مشہور ہے، طوطوں کی زبان طوطے سمجھتے ہیں، فیصل واوڈا کے اس فرمان کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے لیڈر خالد مقبول صدیقی نے کہا ’ہم کسی وقت بھی حکومت چھوڑ سکتے ہیں، مجھے یہ تو نہیں پتہ کس وقت چھوڑیں لیکن کسی وقت بھی چھوڑ سکتے ہیں‘۔ میں ایک عرصے سے ایم کیو ایم کا شمار ان پرندوں میں کرتا ہوں، جنہیں زلزلہ آنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے پھر وہ درخت کی شاخ سے اڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بات خالد مقبول صدیقی تک نہیں رکی بلکہ اس سے اگلے دن ایک تقریب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری سامنے آئے اور انہوں نے پورا سچ بول دیا، کامران ٹیسوری کہنے لگے ’’ میری اور فیصل واوڈا کی یونیورسٹی ایک ہی ہے، جس یونیورسٹی سے فیصل واوڈا نے ایم بی بی ایس کیا ہے، میں نے وہاں سے پی ایچ ڈی کی ہے‘‘۔

یونیورسٹی کا نام ظاہر کئے بغیر کامران ٹیسوری نے مزید کہا ’’یہ فیصل واوڈا عجیب پلیئر ہیں، وہ مخالف ٹیم کے خلاف گول کرنے کی بجائے اپنی طرف ہی گول کر دیتے ہیں‘‘۔ اگر ماضی میں اس کی مثال ڈھونڈی جائے تو بہترین مثال پورس کے ہاتھی ہیں، جنہوں نے اپنے ہی لشکر کو کچل ڈالا تھا۔

یہ تو تھیں نا معلوم یونیورسٹی کی باتیں! ایک ہمارے سامنے عوامی یونیورسٹی ہے، جس میں الیکشن ہوتے ہیں مگر ہر الیکشن میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے، دھاندلی کا شور مچتا ہے یا پھر کوئی اور رولا پڑ جاتا ہے، اس عوامی یونیورسٹی میں نہ تو عوام کا قصور ہے اور نہ ہی الیکشن کی کوئی خطا ہے، یہ الیکشن امتحانات کی مانند ہیں، گڑ بڑ کی ساری ذمہ داری کنٹرولر امتحانات پر ہے، کبھی کنٹرولر صاحب اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لئے نیا امتحانی سنٹر بنا دیتے ہیں، کبھی کوئی پرانا سنٹر بوٹی مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں، کبھی پرچہ آؤٹ کر دیتے ہیں، کبھی عوام کو لگتا ہے کہ پرچہ ہی آئوٹ آف سلیبس آ گیا ہے، اکثر یہ ہوتا ہے کہ کنٹرولر امتحانات اپنے نگرانوں کی نگرانی میں نقل اور جعل سازی کا سارا دھندہ کرواتے ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ نا پسندیدہ امیدواروں کے کاغذات یونیورسٹی پہلے ہی مسترد کر دیتی ہے، امتحان دینے والے بعض امیدواروں کو اسٹامپ پیپر پر یقین دہانی کرانا پڑتی ہے کہ ان کی عمر اتنی ہے، باقی معاملات ایسے ہیں، بعض نا پسندیدہ امیدواروں کو امتحانی سنٹر میں نگران نقل کا الزام لگا کر ان کا امتحان ہی ختم کر دیتے ہیں، بعض کو ملزم قرار دیا جاتا ہے اور بعض پر وہیں مقدمہ بنا کر کارروائی شروع کر دی جاتی ہے۔ عوامی یونیورسٹی میں پیسہ چلنے کے تین اوقات ہیں، امتحان شروع ہونے سے پہلے پیسے کے ذریعے اپنی پسند کا امتحانی سنٹر بنوایا جاتا ہے، نگران بھی اپنی پسند کے لگوائے جاتے ہیں۔

دوسری بار پیسے کا استعمال امتحان کے دن ہوتا ہے، جب پیسے کے بل بوتے پر ساز باز کرکے بوٹی لگائی جاتی ہے۔ پیسہ لگانے کی تیسری باری اس وقت شروع ہوتی ہے، جب امتحان ہو چکا ہوتا ہے اور اب رزلٹ کا انتظار ہوتا ہے، اب نگرانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ چیکنگ کہاں ہونی ہے؟ پیپر کہاں گئے ہیں؟ امتحانی امیدواروں کو یہ سارے راستے کوئی نہ کوئی کھوجی بتاتا ہے پھر وہ پیپر چیک کرنے والے تک پہنچ جاتے ہیں اور یوں تیسرا مرحلہ بھی کامیابی سے عبور کر لیا جاتا ہے۔ ویسے مافیا کے چالاک ڈان وی سی اور کنٹرولر امتحانات کو خرید لیتے ہیں، وہ سیدھا سودا کرتے ہیں، ہمارے علاقے میں بننے والے امتحانی سنٹر ہماری مرضی سے چلیں گے، کچھ مافیاز اور طرح سے کام کرتے ہیں، وہ کنٹرولر امتحانات اور وی سی کو خوب تحفے تحائف دیتے ہیں تاکہ تحفوں کی بنیاد پر سہولت حاصل کی جا سکے، مافیاز کا ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو نگرانوں کو کھانا کھلا کر راضی رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ’’چائے پانی‘‘ بھی الگ پیش کیا جاتا ہے۔ اب تجربے میں ایک نئی بات سامنے آئی ہے، امتحانی سنٹروں کے نگران پاس ہونے والوں سے تو رقم بٹورتے ہی ہیں، فیل ہونے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا ، ان سے بھی جس قدر وصولی ہو سکے، کی جاتی ہے، یہ اب امتحانی نظام میں ایک نئی بیماری سامنے آئی ہے، اس کا مداوا کیسے کیا جائے؟ عوامی یونیورسٹی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی عوامی کنٹرولر امتحانات ہونا چاہئے تاکہ عوامی یونیورسٹی امریکا، برطانیہ، ایران اور دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں کی طرح بھرپور کارکردگی دکھا سکے۔ مجھے اپنے حالات میں ذیشان اطہر کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

بیٹے کو میں نے، عشق سے روکا نہیں

مگر اتنا بتا دیا تھا خسارے کا کام ہے

تازہ ترین