ان دنوں ایک مرتبہ پھر مدارس موضوع گفتگو ہیں۔ سرکار دربار کے ایوانوں کے علاوہ مدارس سے جڑے ہر طبقے میں ان دنوں یہی موضوع زیربحث ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس موضوع کو ایک آتش فشاں بنا دیا ہے۔ انہوں نے ایک جلسہ عام میں حکومت کو کھری کھری سنا کر اپنے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے دباؤ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ ابھی پی ٹی آئی کے احتجاج کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ ایک مذہبی احتجاج کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ جبکہ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کے برعکس موقف رکھنے والے جید علماء اور مدارس کا نمائندہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو چکا ہے جس میں موجودہ نظام کی نہ صرف حمایت کی گئی بلکہ مجوزہ مذہبی احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا ہے۔ برصغیر میں دینی مدارس کا قیام اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا 1857ء کی جنگی آزادی سے قبل ملا نظام الدین سہالوی کا تیار کردہ نصاب جسے درس نظامی کہا جاتا تھا وہ بلاتفریق سب پڑھتے تھے۔ یہ نصاب صرف دینیات پر مشتمل نہ تھا بلکہ اس وقت تمام عصری علوم اس نصاب کا حصہ تھے۔ لیکن 1857ء کے بعد مسلمانوں کے سیاسی زوال کیساتھ ہی علمی زوال شروع ہوا تو مسلم اکابرین نے مسلمانوں کے علمی تہذیبی اور ثقافتی کلچر کو محفوظ کرنے کیلئے مختلف دینی مدارس کی داغ بیل ڈالی۔
اس سوچ کے تحت قائم ہونے والے اداروں میں، دارلعلوم دیوبند، دارلعلوم بھیرہ شریف، جامعہ منظر السلام بریلی، علیگڑھ اسکول اور کالج، اسلامیہ کالج لاہور اور پشاور شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں قائم ہونیوالے تمام ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انہی مذکورہ اداروں سے یا تو فکری رہنمائی لیتے ہیں یا پھر عملی طور پر ان سے منسلک ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد دینی اداروں کے قیام کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ ادارے 1860ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے۔ نائن الیون کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ جہادی، دہشت گرد ٹھہرا دیئے گئے اور یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ تمام دینی اداروں کو ایک نظم کے تحت لایا جائے۔ 2005ء میں ایک بھرپور کوشش کی گئی لیکن بیل منڈھے نہ چڑھی۔ وقت کیساتھ دینی اداروں نے اپنے اندر بھی تنظیم پیدا کر لی اور ملک میں پانچ وفاق قائم ہو گئے۔ ہر مسلک کے ادارے اپنے اپنے وفاق کے تحت رجسٹرڈ ہوئے اور اپنی طے کردہ حدود و قیود کے مطابق دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
بعض مقامی اور بین الاقوامی مجبوریوں کے تحت ہر حکمران کی یہ خواہش رہی کہ دینی اداروں کو انتظامی شکنجے میں لایا جائے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ا ٓخر 2019ء میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں طویل مذاکرات کے بعد اتحاد تنظیمات مدارس اور حکومت کے مابین اتفاق رائے سے ایک معاہدہ طے پا گیا کہ اب مدارس سوسائٹیز ایکٹ 1860ء کے بجائے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہونگے اور اس مقصد کیلئے ایک الگ ڈائریکٹریٹ قائم کیا گیا جس کی ملک بھر میں برانچز قائم کر دی گئیں۔ حکومت نے 10 نئے وفاق بھی قائم کر دیئے لیکن مدارس کی اکثریت پرانی تنظیمات کیساتھ ہی ملحق رہی۔ کچھ تعلیمی ادارے کسی وفاق کا حصہ بنے نہ ہی حکومتی بورڈز میں شامل ہوئے انہوں نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی ان میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف، ادارہ منہاج القرآن اور جامعہ الرشید کراچی نمایاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن چونکہ تحریک انصاف کے ساتھ ’’دو بدو‘‘ 'تھے اس لئے انہوں نے حکومتی نظام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پی ڈی ایم کے دور حکومت میںترمیم لانے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی تاہم 26 ویں آئینی ترمیم کے مرحلے پر مولانا فضل الرحمن یہ ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن صدر مملکت نے اس پر مختلف اعتراضات لگا کر یہ بل واپس کر دیا۔ یوں حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گیا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں 59 ہزار دینی مدارس کام کر رہے ہیں جن میں تقریبا 50 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ان مدارس میں سے 18 ہزار مدارس حکومتی نظام کے تحت رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی مدارس حسب سابق اپنی تنظیمات کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے حکومت ایک واضح پالیسی اختیار کرے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے لیکن انہیں حکومتی نظم و نسق سے کلیتا آزاد کرنا بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔2019 کا معاہدہ ایک ایسی دستاویز ہے جسکی بنیاد پر اتفاق رائے قائم کیا جا سکتا ہے۔اس معاہدہ کے حوالے سے دینی شخصیات کے تحفظات دور کیے جا سکتے ہیں۔ راقم کی رائے میں اتحاد تنظیمات مدارس کو وزارت تعلیم میں رجسٹرڈ ہو کر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی جماعت کے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے دینی اداروں کو ایندھن بننے سے روکنا چاہئے۔دینی مدارس اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی این جی او ہیں جو کسی حکومتی امداد کے بغیر لاکھوں طلبہ کوکھانا رہائش اور تعلیم مفت فراہم کر رہی ہیں۔ انکے مسائل حل کرنے اور ان کو انتظامی سہولیات فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں لیکن ارباب سیاست جو مذہب اور دینداری کا پس منظر رکھتے ہیں انہیں بھی مدارس کی طاقت کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔لیکن احتجاج اور دھمکیوں سے مسائل حل نہیں ہونگے اس کیلئے سب بڑوں کو مل کر بیٹھنا پڑے گا۔