گزشتہ دنوں شام میں اپوزیشن فورسز کے دارالحکومت دمشق کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد 24سال سے برسراقتدار بشار الاسد کی آمریت کا خاتمہ صرف 11دنوں میں ہوگیا۔ بعد ازاں دمشق میں کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے جیسے اس سے قبل عراق اور لیبیا میں دیکھے گئے تھے، لوگوں نے بشار الاسد کے صدارتی محل میں داخل ہوکر سیلفیاں اور ویڈیوز بنائیں اور قیمتی اشیاء لوٹ کر فرار ہوگئے جبکہ دمشق میں نصب اسد خاندان کے مجسمے بھی گرادیئے گئے۔ ایسے میں رات کی تاریکی میں بشار الاسد کو ایک طیارے میں ماسکو فرار ہونا پڑا اور اس طرح اسد خاندان کے 54سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ شام کی مجموعی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے جس میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ 13فیصد کا تعلق شیعہ علوی گروپ سے ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد سن 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ حافظ الاسد 29برس تک شام کے حکمراں رہے جبکہ بشار الاسد نے بھی اپنے والد کی طرح 24 برسوں تک روس اور ایران کی مدد سے ملک پر آہنی کنٹرول رکھا اور ان کے دور میں شام کی جیلیں سیاسی قیدیوں اور باغیوں سے بھری تھیں۔ بشار الاسد باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں طویل عرصے سے روس، ایران اور حزب اللہ جیسے اتحادیوں پر انحصار کررہے تھے تاہم 2022سے جاری روس، یوکرین جنگ کے باعث روس کی توجہ یوکرین جنگ پر مرکوز ہوگئی اور شام روس کی ترجیح نہیں رہا۔ ایسی صورتحال میں روسی طیارے ماضی کے مقابلے میں اس بار شامی فوج کو وہ مدد فراہم نہیں کرسکے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ دوسری طرف ایران کی قیادت کو رواں سال اسرائیلی حملوں میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور اسرائیل، ایران کشیدگی کے باعث ایران کی خطے میں گرفت کمزور پڑگئی۔ اسی طرح لبنان میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں حزب اللہ کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ موجودہ صورتحال کا شام کے باغیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ منظم ہوکر حکومت کے خلاف بغاوت میں کامیاب رہے۔ شام میں اسد خاندان کے اقتدار کے خاتمے سے خطے میں ایران اور روس کے مفادات اور اثر و رسوخ کو شدید دھچکا پہنچا ہے اور مشرقِ وسطیٰ پر روس کا اثر و رسوخ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف اسد خاندان کے اقتدار اور ایران کے اثر و رسوخ کے خاتمے کو اسرائیل اپنی فتح سے تعبیر کررہا ہے کیونکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایران کی جانب سے ہتھیار سپلائی کرنے کا دستیاب راستہ اب بند ہوگیا ہے۔ موجودہ صورتحال کا امریکہ اور اسرائیل بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں جو بشار الاسد حکومت کے خلاف باغی فورسز کی بغاوت کو طویل عرصے سے سپورٹ کررہے تھے۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اسرائیل کے زیر قبضہ شام کے گولان کے پہاڑی علاقوں میں اپنی فوج بڑھانے کا اعلان کیا ہے جبکہ لبنان نے بھی شام کی سرحد پر اپنی افواج کی تعداد بڑھادی ہے۔ شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کی کامیابی کے بعد یہ بات خارج از امکان نہیں کہ مستقبل میں عراق کو بھی شام جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جہاں فرقہ وارانہ فسادات جنم لے سکتے ہیں۔ اگر اسرائیل، عراق میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگیا تو اس کا آخری ہدف ایران ہوگا جسے وہ ہمیشہ سے خطے میں اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے اور وہ امریکہ کی مدد سے ایران میں بھی شام جیسی صورتحال پیدا کرکے رجیم چینج کی کوشش کرے گا۔ اسرائیل کا خواب ہے کہ خطے کے ممالک ایران کے اثر و رسوخ سے نکل کر اس کے اثر و رسوخ میں آجائیں لیکن یہ صورتحال خطے کے مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ہوگی۔ گوکہ اسد خاندان کے اقتدار کا خاتمہ شام کی اپوزیشن فورسز کی بڑی فتح تصور کی جارہی ہے اوربشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد شام کی ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد سرکاری فوج تتر بتر ہوچکی ہے مگر شام کا مستقبل غیر یقینی نظر آرہا ہے جو ملک کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے اور یہ بات خارج از امکان نہیں کہ شام میں بھی ایسی خونریزی کی صورتحال پیدا ہوجائے جیسی صورتحال کا سامنا عراق کو صدام حسین اور لیبیا کو معمر قذافی کے جانے کے بعد پیش آیا تھا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ گویا ایک ایسا عمل ہے جیسے شام کو ایک آمر سے نجات دلا کر عالمی دہشت گردوں کے سپرد کیا جارہا ہو اور ایسی صورتحال میں لیبیا اور عراق کی طرح شام میں بھی خانہ جنگی خارج از امکان نہیں۔ موجودہ صورتحال شام کو مستقبل میں ایک ناکام ریاست کی طرف لے جائے گی جہاں داعش اور القاعدہ کو اپنے قدم جمانے اور اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملے گا جو خطے کے دیگر ممالک کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں مشرق ِوسطیٰ کا نقشہ بدلتا نظر آرہا ہے۔ آنے والے دنوں میں خطے میں ایسے واقعات رونما ہونے جارہے ہیں جن کی کئی برسوں سے منصوبہ بندی کی جارہی تھی جس کا مقصد شام میں جمہوریت قائم کرنا نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی سے خطے میں اسرائیلی توسیع پسندی کے عزائم کو تکمیل تک پہنچانا ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اس طرح 2025 ایران کیلئے نئی مشکلات لے کر آنے والا سال ثابت ہوسکتا ہے۔ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ اسرائیل، شام کی موجودہ صورتحال کا فائدہ نہ اٹھاسکے۔ انہیں شامی عوام کے مفادات کا سوچنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ شام بھی خانہ جنگی کا شکار عرب ریاستوں کی روش پر چل پڑے۔