• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کے ماہرین 20جنوری 2025ءکی تاریخ کو بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی نظام کیلئے ایک فیصلہ کن گھڑی قرار دے رہے ہیں کیونکہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر برکس تنظیم کے ممالک نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی کوئی نئی کرنسی لانے کی کوشش کی تو ایسے ممالک امریکی معیشت میں اپنی اشیاء کی فروخت کو خدا حافظ کہہ دیں کیونکہ وہ انکی درآمدات پر سو فیصد ٹیرف لگائیں گے۔حالیہ سال اکتوبر میں برکس کے روس میں ہونے والے اجلاس میں ممبر ممالک نے بین الاقوامی ادائیگیوں کے ایک متبادل نظام کی ضرورت پر زور دیاتھا تاکہ ڈالر کے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کو روکا جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے فرانس اور جرمنی کے ان اقدامات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جن سے ان ممالک کا ڈالر پر انحصار کم ہو رہا ہے۔2023ء میں فرانس نے چین سے 16بڑے بحری جہاز بنوانے کا معاہدہ چینی کرنسی یوآن میں کیا ہے جس کی مالیت تقریبا3.1بلین ڈالر ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ برکس کے دوسرے ممبر ممالک ، برازیل، روس اور چین بھی مقامی کرنسیوں میں معاہدے کر رہے ہیں ۔ روس اپنے ایشیائی دوست ممالک کو تیل کی فراہمی ڈالرز کی بجائے یوآن میں کر رہا ہے جبکہ بھارت کو بھارتی کرنسی میں تیل فراہم کر رہا ہے۔سعودی عرب، روس اور ایران دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں اور اگر انہوں نے برکس کی کرنسی کو اپنا لیا تو امریکہ اور یورپ کی اقتصادی اجارہ داری کے خاتمے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ ڈالر کی اجارہ داری 1944میں بریٹن ووڈ کے معاہدے سے شروع ہوئی جسکو امریکہ نے آہستہ آہستہ اپنی بین الاقوامی اجارہ داری کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بریٹن ووڈ کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت آئی ایم ایف کا ادارہ تشکیل پایا اور ممبر ممالک نے بین الاقوامی تجارت ڈالرمیں کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک نے ڈالر میں تجارت کوتو کم کر دیا لیکن ڈالر کی بین الاقوامی اجارہ داری کو کبھی چیلنج نہیں کیا۔جن ممالک نے ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی کوشش کی،ان میں کیوبا اور عراق شامل ہیں، ان پر معاشی پابندیاں اور جنگ مسلط کرکے انکے اقتصادی نظام کو ہی جڑ سے اکھاڑ دیا گیاجس سے بین الاقوامی طور پر یہ سبق ملا کہ ڈالر کی ا جارہ داری کے خلاف انفرادی حکمت عملی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ نے گلوبلائزیشن کے تحت فری ٹریڈ کے عمل کو آگے بڑھایاتاکہ عالمی تجارت پر اسکی اجارہ داری کو مستحکم کیا جا سکے۔اس کے بعد چینWTOکا ممبر بن گیا اور یوں کئی امریکی کمپنیوں نے منافع کے لالچ میں اپنی مینوفیکچرنگ چین میں منتقل کر دی۔ اس پر 2017ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے فری ٹریڈ پر مبنی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین کے WTOکا ممبر بننے سے امریکہ کے 20لاکھ مزدور بے روزگار ہوگئے۔انہوں نے اعلان کیا کہ وہ’’امریکہ فرسٹ‘‘کے نعرے پر مبنی ایک ایسا نظام تشکیل دیں گے جس میں امریکہ کے ساتھ مفت میں تجارت کرکے کوئی یک طرفہ خوشحال نہ ہو سکے گا۔آج ڈالر کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 8ٹریلین ڈالرز کے قرضے کے باوجود امریکی ڈالر دنیا پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہے اور 2008ء کا معاشی بحران بھی اسکی ساکھ کو نقصان نہ پہنچا سکا۔امریکہ مسلسل نئے قرضے لے رہا ہے تاکہ وہ اپنا پرانا قرضہ اتار سکے جس کی اصل وجہ ڈالر کی مضبوط کرنسی ہے۔ٹرمپ کی حالیہ دھمکی اس وقت سامنے آئی جب برکس کے ممبر ممالک نے اپنے سربراہی اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ ممبر ممالک آپس میں مقامی کرنسیوں میں تجارت کریں۔ گو ان ممالک نے اب تک باضابطہ طور پر کسی ایک کرنسی کے مشترکہ استعمال کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کے باوجود ممبر ممالک کے درمیان تجارت میں مقامی کرنسیوں کا حجم بڑھا ہے۔دوسری طرف بڑھتی ہوئی امریکی پابندیوں کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک امریکی ڈالرز میں قرضہ لینا کم کر رہے ہیں۔یہ قرض 2013ء میں 43فیصد تھا جو 2023میں کم ہوکر 33فیصد رہ گیا ۔ بین الاقوامی کرنسیوں سے وابستہ ماہرین کا خیا ل ہے کہ برکس آج اسی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ستر کی دہائی میں یورپین ممالک کھڑے تھے ۔اس لیے برکس ممالک جلد از جلد مشترکہ کرنسی لا کر امریکہ کی اجارہ داری کو کمزور کر سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ برکس ممالک کو امریکی پابندیوں کے خلاف اپنی حکمت عملی اور اقتصادی پالیسیوں کوبھی واضح کرنا ہوگا جس طرح یوکرین جنگ کے بعد امریکہ نے روس پر جو پابندیاں لگائیں، اسکو دنیا کے زیادہ تر ممالک نے نافذ کرنے سے انکار کر دیا ۔ ان میں 54افریقی،32لاطینی اور 22مشرق ِوسطیٰ کے ممالک میں سے کسی نے بھی یہ پابندیاں روس پر نافذ نہ کیں۔48ایشین ممالک میں سے صرف جنوبی کوریا، سنگاپور اور جاپان جبکہ بحرالکاہل کے16جزیرائی ممالک میں سے صرف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اس پر عمل درآمد کیا۔ یوں یورپ کو چھوڑ کر دنیاکےباقی 175ممالک میں سے صرف 5ممالک نے یہ پابندیاں نافذ کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا ۔دوسری طرف چین اب تک ان 175ممالک میں سے140ممالک کے ساتھ بڑے پیمانے کی تجارت کر رہا ہے اورون بیلٹ، ون روڈکے ذریعے امریکہ کی اقتصادی اجارہ داری کو کمزور کر رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ برکس کے فورم پر ایسی حکمت عملی اور اقتصادی پالیسیوں کو وضع کیا جائے جس سے امریکی پابندیوں کا اثر زائل کیا جا سکے۔ ایک مشترکہ کرنسی کے ذریعے ہی امریکہ کی اسلحے کی فراوانی اور جنگوں کے ذریعے بالادستی کے تصور کو بین الاقوامی طور پر کمزور کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین