روس میں موجود شام کے سابق حکمران صدر بشار الاسدکا دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط اقتدار سے اچانک بے دخلی کے بعد پہلابیان منظرعام پر آچکا ہے جس میں انہوںنےاپنی حکومت کے آخری لمحات سے پردہ اٹھایا ہے، بشار الاسد سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ انکا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، تاہم شامی فوج کی پسپائی اور ریاست کے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کے بعد انکا کردار معنیٰ خیز نہیں رہا تھا اور انہیںشام میں واقع روسی فوجی اڈے سے ہی براہ راست ماسکو پہنچانے کے انتظامات کیے گیے۔بشار الاسد کی معزولی کوایران کی زیرقیادت اسرائیل امریکہ مخالف علاقائی اتحاد کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا قرار دیاجارہا ہے،تاریخی طور پر سانحہ نائن الیون کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایران، عراق اور شمالی کوریا کو برائی کا محور (ایکسس آف ایول)قرار دیا تھا، بعد ازاں لیبیا کے ایک اخبار نے اپنے ادارتی مضمون میں امریکی صدر کے قابلِ اعتراض بیان کے تناظر میں مزاحمت کا محور(ایکسس آف ریسسٹنس) کی اصطلاح متعارف کروائی جو بہت جلد ایران، مڈل ایسٹ سمیت مغربی ممالک میں مقبول ہوگئی۔نائن الیون کی دو دہائیاں بیت جانے کے دوران ایران کی حمایت سے لبنان میں قائم حزب اللہ، یمن کے حوثی جنگجوئوں، عراق کے عسکریت پسندگروہوںاور غزہ میں حماس جیسی تنظیموں پر مشتمل محورِ مزاحمت کے نام سےایک ایساغیررسمی علاقائی عسکری اتحاد قائم ہوگیا جسکااولین مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کو خاک میں ملانا تھا،ایرانی قیادت کی جانب سے متعدد مواقع پر شام کے حکمران بشار الاسد کے کلیدی کردارکو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا راستہ شام کی شاہراہ سے گزرتا ہے۔ جب 2011ء میں شام کے حکمران بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا تو ایران شامی حکومت کی حمایت میں کھُل کر سامنے آگیا کہ سرزمین شام میں شورش اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ مزاحمت کے محور کو نقصان پہنچانے کی عالمی کوشش ہے، ایرانی حکومت نے موقف اپنایا کہ ایران کسی بھی صورت محورِ مزاحمت توڑنے کو برداشت نہیں کرے گا، مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران نے گزشتہ تیرہ برسوں میں بشارالاسد حکومت قائم رکھنے کیلئے اندازاََ پچاس بلین ڈالر خرچ کر ڈالے، دوسری طرف محورِ مزاحمت کے اہم عسکری اتحادی ملک روس نے بشارالاسد کی حمایت میں باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کردیے جس سے طاقت کا توازن بشار الاسد کے حق میں ہوگیا۔ ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں سرگرم اسرائیل مخالف جنگجوؤں کو روسی ساختہ جدید ہتھیاروں کی براستہ شام سپلائی نے محورِ مزاحمت کو ایک ایسی زبردست طاقتور قوت میں ڈھال دیا جو ایران کی طرف اٹھنے والے ہر ہاتھ کو ایران کی طرف پہنچنے سے پہلے ہی کاٹ ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہو، گزشتہ برسوں میں ایسے بہت سے امریکہ مخالف مظاہرے میڈیا کی زینت بنے جنکے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای، شام کے صدر بشارالاسد، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی تصاویر پر مبنی پوسٹرزاور بینرز لہرائے جاتے رہے۔بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت سے حماس، حزب اللہ، یمن کے حوثی اور عراقی مذہبی گروہوں پر مشتمل مزاحمت کا محور اسرائیل کے خلاف مزید مضبوط ہو کر اُبھرے گا، ایران کے سپریم لیڈر کا کہنا ہے کہ شام کے سابق حکمران بشار الاسد کی معزولی اور ایران کو شام سے باہر دھکیلنے کا منصوبہ امریکہ اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر تیار کیا، تاہم اسرائیل نے ایرانی الزام کو مسترد کردیا ہے کہ تہران خود اپنے اتحادی کے زوال کا ذمہ دار ہے۔دوسری طرف یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالس نےیورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد موقف اپنایا ہے کہ شام کے مستقبل میں روس اور ایران کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، مزید براں یورپی یونین اس امر پر متفق ہے کہ شام کی نئی قیادت کو روسی اثر و رسوخ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ۔عالمی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد اور حسن نصراللہ کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد اب یمن میں سرگرم جنگجو لیڈر عبدالمالک الحوثی محورِمزاحمت کی سربراہی کا خواہاں ہے، تاہم حوثیوں کے غیر دانشمندانہ رویے اور جذباتی طرزِ عمل کی بنا پرخود ایرانی قیادت کو تحفظات لاحق ہیں جبکہ محورِ مزاحمت کا طاقتور اتحادی ملک روس یوکرائن جنگ کے باعث مشرق وسطیٰ میں مزید کوئی عملی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سرزمین فلسطین کو مزید لہولہان ہونے سے بچانے کیلئے قطر اور مصر سفارتی سطح پر متحرک ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ میں جنگ بندی کیلئے جاری مذاکرات میں شرکت کیلئے قاہرہ پہنچ گئے ہیں، امریکی میڈیا کے مطابق نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے حماس کو الٹی میٹم دے دیاہے کہ اگر انکے صدارتی حلف اُٹھانے کے دن بیس جنوری سے قبل اسرائیلی یرغمالی رہا نہ ہوسکے اور غزہ سیزفائر کا معاہدہ طے نہیں پاتا تواسکے نتائج قطعی طور پر خوشگوار نہیں ہونگے اور حماس پر قیامت ٹوٹ پڑے گی، مصر میں جاری امن مذاکرات کے تناظر میں توقع کی جارہی ہے کہ غزہ میں سیز فائر کے حوالے سے بریک تھرو بہت جلد ہونے والا ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایران کی اشیرباد کے بغیر فلسطینی جنگ بندی پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور ٹرمپ اپنے گزشتہ دورِ اقتدار کے ابراہمی معاہدے کو مزید وسعت دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توانکا یہ اقدام محورِ مزاحمت کیلئے ایک اور بڑا فیصلہ کُن دھچکا ثابت ہوگا اور ایران مشرق وسطیٰ خطے کے اہم ترین علاقائی کھلاڑی کی حیثیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ میری مالک سے دعا ہے کہ نئے سال کا سورج فلسطین کے معصوم باسیوں کیلئے امن کا سندیسہ لیکرطلوع ہو اورعالمی قوتیں تصادم ترک کرکے انسانیت کی خاطرڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔