امریکا میں مقیم غضنفر ہاشمی کی کتابوں کی تقریب تھی، یہاں کئی لوگوں نے خطاب کیا مگر افتخار عارف کے لفظوں نے رُلا کر رکھ دیا، ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی آئینے کے رو برو سچ بول رہا ہو اور دنیا کے بڑے شیاطین پر سنگ باری کر رہا ہو، افتخار عارف لفظوں کی نگری کے وہ کاریگر ہیں جو پوری محفل کو گرفت میں لینے کا ہنر خوب جانتے ہیں، اس شام ایسا ہی ہوا، جب پوری محفل ان کی گرفت میں تھی تو انہوں نے دنیا کے منافقانہ کرداروں کی کارروائیوں کو کھول کر بیان کرنا شروع کیا، انسانی حقوق کے علمبرداروں کے چہروں پر تمانچے مارتے ہوئے غزہ کے بچوں کی روتی بلکتی ساری کہانیاں بیان کیں، دنیا میں آزادی اور غلامی کے نعروں میں چھپی تمام تر منافقت بیان کرتے ہوئے افتخار عارف نے عجیب کڑوا سچ بولا کہ درجنوں نعروں میں یہی پتہ نہیں چلتا، کون سا اصلی نعرہ ہے؟ انسانی حقوق کے گیت گانے والے کس منہ سے انسانوں کو قتل کرتے ہیں؟ شاعر گفتگو کر رہا تھا اور مجھے اس کی نظم بارہواں کھلاڑی یاد آ رہی تھی کیونکہ دنیا کے ٹھیکیداروں نے بہت سے ملکوں کو بارہواں کھلاڑی بنا رکھا ہے جبکہ وطن عزیز میں عوام بارہویں کھلاڑی ہیں، عوام پر تشدد ہوتا ہے، مقدمے بھی انہی پر بنتے ہیں، زندانوں کا رزق بھی وہی ہوتے ہیں، کیسے مسحور کن لیبل میں کس طرح دھوکہ دیا جاتا ہے، انسان انسانوں سے عجیب منافقتیں کرتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کو بارہواں کھلاڑی بنا کے رکھ دیتے ہیں، اس گورکھ دھندے کو سمجھنے کیلئے افتخار عارف کی نظم پڑھیے! تاکہ آپ کو سمجھ آ سکے کہ بارہواں کھلاڑی کیا ہوتا ہے
خوش گوار موسم میں/ ان گنت تماشائی/ اپنی اپنی ٹیموں کو/ داد دینے آتے ہیں/ اپنے اپنے پیاروں کا /حوصلہ بڑھاتے ہیں/ میں الگ تھلگ سب سے /بارہویں کھلاڑی کو /ہوٹ کرتا رہتا ہوں/ بارہواں کھلاڑی بھی /کیا عجب کھلاڑی ہے/ کھیل ہوتا رہتا ہے/ شور مچتا رہتا ہے/ داد پڑتی رہتی ہے/ اور وہ الگ سب سے/ انتظار کرتا ہے/ ایک ایسی ساعت کا/ایک ایسے لمحے کا /جس میں سانحہ ہو جائے/پھر وہ کھیلنے نکلے /تالیوں کے جھرمٹ میں/ ایک جملۂ خوش کن/ ایک نعرۂ تحسین/ اس کے نام ہو جائے/سب کھلاڑیوں کے ساتھ/ وہ بھی معتبر ہو جائے/پر یہ کم ہی ہوتا ہے/ پھر بھی لوگ کہتے ہیں/ کھیل سے کھلاڑی کا /عمر بھر کا رشتہ ہے/عمر بھر کا یہ رشتہ /چھوٹ بھی تو سکتا ہے/ آخری وسل کے ساتھ/ ڈوب جانے والا دل/ ٹوٹ بھی تو سکتا ہے/ تم بھی افتخار عارف بارہویں کھلاڑی ہو/ انتظار کرتے ہو/ ایک ایسے لمحے کا/ ایک ایسی ساعت کا /جس میں حادثہ ہو جائے/جس میں سانحہ ہو جائے/تم بھی افتخار عارف/ تم بھی ڈوب جاؤ گے/ تم بھی ٹوٹ جاؤ گے..... دیکھا کس طرح بارہویں کھلاڑی کی زندگی لمحوں کی محتاج ہوتی ہے، پاکستان میں بڑے بڑے لوگ کرپشن کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے، حکمرانوں کے سارے ٹھاٹھوں کا قرض عوام ادا کرتے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ نگہبانوں کی موجودگی میں گلشن اجڑ رہا ہے اور مزید بد بختی یہ ہے کہ قرض ہڑپ کرنیوالے معزز بنے پھرتے ہیں جبکہ قرض ادا کرنیوالوں کیلئے ہر طرف رسوائیوں کے ڈیرے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ جنہیں حاکم ہونا چاہیے تھا وہ محکوم بنا دیئے گئے، اب ہماری جعلسازیوں کا آئینہ دوسرے ملک دکھا رہے ہیں، دنیا کے سامنے ہمارا چہرہ کیا ہے؟ یہ بہت سے بین الاقوامی ادارے بیان کر چکے ہیں، اب تو امریکا بہادر نے بھی 8فروری کو ہونیوالے الیکشن پر انگلیاں اٹھا دی ہیں، تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے، ہم تو پہلے ہی ان انتخابات سے متعلق شبہات بیان کر چکے ہیں، آگے بڑھنے کیلئے عوامی رائے کا احترام کرنا پڑیگا، یہی سب سے بڑی سچائی ہے۔ آخر میں محبوب ظفر کے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔
ہمیں تو اہل سیاست نے یہ بتایا ہے
کسی کا تیر کسی کی کمان میں رکھنا
جدید عہد کے مقروض ہیں مرے بچے
مرے خدا انہیں اپنی امان میں رکھنا