• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دعا عظیمی افسانہ نگار ہیں اور حال ہی میں ان کی کتاب’فریم سے باہر‘ شائع ہوئی ہے۔افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کا یہ المیہ ہے کہ اُنہیں بہت کم مائیک پر اپنی تخلیق سنانے کا موقع ملتا ہے البتہ شاعر مشاعرے پڑھ پڑھ کر حاضرین اور مائیک کے کرنٹ سے بخوبی آگا ہ ہو چکے ہوتے ہیں سو میں سمجھتا ہوں افسانے یا ناول پر گفتگو اگر ہوسکتی ہے تو تقریب رونمائی میں یا پھر کسی بک ریویو میں۔میری کوشش ہے کہ جو تین کتابیں حال ہی میں پڑھی ہیں ان کی لذت میں آپ کو بھی شریک کروں۔ دعا عظیمی کے افسانوں میں ہولناک سچائی نظر آتی ہے۔ ان کی کہانیاں المیے سے جنم لیتی ہیں اور افسانہ ختم ہوتے ہی انسان کچھ دیر کیلئے ساکت ہو جاتا ہے۔ ان کی کتاب میں کہانی کے ساتھ نہایت نئے پن سے لبریز مکالمے پڑھنے کو ملے۔ چند مکالمے دیکھئے ’’یہ مانا کہ کوئلہ ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن یہ ہماری کمر کی ہڈیاں توڑ دیتی ہے۔ اِس وادی میں اچھے خوابوں پر جنازوں کا سایہ تھا۔ کتنے ہیروں کو کوئلے کی کان کھا گئی۔ میں چاہتا تھا کہ مردم شماری والا بابو اِس درخت کو بھی انسان مان لے تاکہ جب اس کچی کو پکی کرنے کی باری آئے تو کوئی اسے جڑ سے نہ اکھاڑ سکے۔ پہلے جیسے سرہانوں کے غلاف پر کشیدے کاڑھتی تھی اب ایسے ہی کاغذوں پر قصے کاڑھتی ہوں۔‘‘ دعا عظیمی کی کتاب میں افسانوی اور ’کہانوی‘ رنگ بکثرت نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے افسانے میں کہانی کی واپسی پر خوشیاں منانے والوں میں وہ بھی شامل ہیں۔ یہ افسانے محبت، معیشت، رشتے اور سماج کے درد میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک لائن ملاحظہ کیجئے ’جب ندی کے بہت پانی میں عورتیں کپڑے دھوتی ہیں تو میں کپڑوں کی اِس میل کو اپنے دل کی گڈوی میں بھر لاتی ہوں، اسے چھانتی ہوں، بلوتی ہوں اور کہانی کا پیڑہ نکالتی ہوں، میں ان کے قصے سنتی ہوں اور انہیں کہانیوں میں بدل کر انہی کو سنا دیتی ہوں، وہی شہر کے رسالوں میں چھپ جاتی ہیں‘۔ یہ افسانے نثری شاعری ہیں۔

دوسری کتاب بھی افسانوں کی ہے اور یہ ہے معروف براڈ کاسٹر، کالم نگار اور شاعرہ صوفیہ بیدار کی۔ صوفیہ بیدار اور افسانے؟ یہ میرے لیے بہت چونکا دینے والی بات تھی۔ پھر میرے ہاتھوں میں ’رنگریز‘ آئی۔ کتاب کا ہر افسانہ شدید ترین تاثر کا حامل ہے جس سے نکلنے کیلئے ایک نشست کافی نہیں۔ صوفیہ جتنی ہنستی مسکراتی نظر آتی ہیں انکے افسانوں میں اتنی ہی تلخی بھری ہوئی ہے۔ فیمنسٹ تو وہ ہیں لیکن یہ افسانے یک رخی فیمنسٹ کے قلم سے نہیں لکھے گئے۔ ان میں تو برداشت میں ڈوبی ہوئی بربادیوں کا نوحہ ہے۔ چونکہ صوفیہ باکمال شاعرہ بھی ہیں لہٰذا خیال کی ندرت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ذرا جملہ ملاحظہ فرمائیے اور سر دھنئے ’عشق تو کرتی ہی شادی شدہ عورت ہے، کنواری تو رشتہ ڈھونڈتی ہے‘۔ اِن افسانوں کے ذریعے میری ملاقات ایک مختلف قسم کی صوفیہ بیدار سے ہوئی۔ یہ صوفیہ اداس ہے، دُکھوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، نباہ کے روایتی تصور سے بندھی ہوئی ہے اور کسی گمنام عشق کے مزار پر مجاوری کر رہی ہے۔ ’رنگریز‘ کی صوفیہ بیدار تصوف کے رنگ میں رنگی ہوئی نظر آئی اور پہلی بار صوفی کے مقابلے میں ’صوفیہ‘ کا ادراک ہوا۔ بظاہر خوش وخرم اور چہلیں کرنیوالی صوفیہ بیدار جب افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آئی تو اندازہ ہوا کہ عورت بہرحال درد کی مٹی سے گندھی ہوئی ہوتی ہے جسے اظہار کا موقع ملے توپڑھنے والے کا کلیجہ نکال کے رکھ دیتی ہے۔

تیسری کتاب ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف کالم نگار اور افسانہ نگار سجاد جہانیہ کی ہے ’کہانی پوچھتی ہے‘۔ سجاد جہانیہ ایک پختہ کار ادیب ہیں۔ ان کی کہانیوں میں دیہات سانسیں لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں ’چڑیل، جن، بھوت اور ڈائن‘ بطور استعارہ استعمال ہوئے ہیں۔ وہ خوفناک منظر کشی کے ذریعے سماج کی کالک لگی تصویر پیش کرنے پر قادر ہیں۔ یہ ایسی کہانیا ں ہیں جن کے کرداروں اور ماحول کو تلاش نہیں کرنا پڑتا، یہ ہمارے اردگرد کے لوگ ہیں لیکن سجاد جہانیہ نے اِنہیں مکمل جزئیات کے ساتھ دیکھا اور کاغذ پر منتقل کیا۔ یہ سچ ہے کہ اچھی کہانی غربت سے ہی جنم لیتی ہے اور سجاد جہانیہ اس باریکی سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا ان کی کہانیوں میں معاشی ناہمواری اور جنسی ناآسودگی بنیادی موضوعات ہیں۔ دونوں بھوک رکھتے ہیں اور دونوں کی کمی خوفناک مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے ایک اور بھی تجربہ ہوا کہ یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے پورا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ بعض اوقات تو سجاد جہانیہ جزئیات نگاری میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتاہے کہ وہ بھی اسی ماحول کا ایک حصہ ہے۔ لاجواب کتا ب ہے، افسانے اور کہانی سے محبت کرنے والوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔اور چوتھی کتاب مسکراہٹوں سے لبریز ہے۔ یہ ڈاکٹر مظہر عباس رضوی کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہے اور نام ہے ’دخل درما کولات‘۔ یقیناً میری طرح آپ کو بھی لگا ہوگا کہ شائد ٹائٹل میںکمپوزنگ کی کوئی غلطی ہے ’دخل در معقولات‘ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پتا چلا کہ ’ماکولات‘ بھی درست ہے اور اس کا تعلق کھانے پینے سے ہے۔ کتاب کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ساری ’غذائی شاعری‘ شامل ہے۔ ہر ڈش پر شعر موجود ہیں۔ سبزیاں، گوشت، دالیں، پھل، میوے، بیکری آئٹمز، سویٹ ڈشز، حتیٰ کہ پان ، سگریٹ، مربہ جات اور پکوڑوں پر بھی قہقہہ بار اشعار شامل ہیں۔ بعض جگہ تو بطور ڈاکٹر، مصنف نے غذا سے علاج بھی بتایا ہے۔ بڑی خوش مزاج کتاب ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نمونے کا شعر دیکھئے’

کھیتوں میں اس طرح سے نظر آئیں بھنڈیاں

جیسے کسی حسین کی مخروطی انگلیاں

تازہ ترین