ہر فرد کی زندگی کئی کہانیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، ہم لکھنے والے ارد گرد پھیلے ہوئے واقعات کو اپنے خیالات کی بھٹی سے گزار کر کہانی کے نت نئے روپ میں رقم کرتے رہتے ہیں، منظر نامے لکھنے والے بھی کہیں نہ کہیں موجود ضرور ہوتے ہیں۔لیکن کبھی اس دکھ کا احاطہ نہیں کر سکتے جو کردار بذات خود محسوس کرتا ہے یا جس اذیت سے گزرتا ہے۔زیادہ تر لوگ پردے کے پیچھے رہ کر اپنی بپتا کو افسانوی انداز میں بیان کرتے ہیں،لیکن کچھ دلیر لوگ اپنی آپ بیتی کو بڑی مہارت سے اس طرح بنتے ہیں کہ اسے جگ بیتی بنا دیتے ہیں۔ اپنی کتھا سناتے اور اپنا احوال بتاتے ہوئے وہ اپنے گردوپیش اور زمانے کی اصل حالت سے روشناس کرا کے تاریخی اور تہذیبی حوالے سے بڑا کام کرتے ہیں۔ جس میں صرف ایک فرد کے اچھے برے پہلوؤں کی عکاسی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے کردار بے نقاب ہوتے ہیں۔ایسی ہی ایک کہانی نے مجھے شدید حیران بھی کیا اور متاثر بھی ۔انسانی حقوق کے حوالے سے بہت معتبر مسعود لوہار جن سے میری روحانی رغبت بھی ہے کی وساطت سےایک کتاب مجھ تک پہنچی، پہلے دو صفحات نے ہی فیصلہ کر دیا کہ پوری دلجمعی سے کتاب کے اندر بکھرے واقعات سے جڑت پیدا کی جائے، ہر صفحہ متاثر کرتا ہوا ہاتھ پکڑ کر آگے لے جاتا رہا، مصنف محمد خان ابڑو کی ہنرمندی کی تحسین کرنی پڑے گی کہ وہ قاری کی توجہ کو لفظوں سے اس طرح باندھ لیتا ہے کہ قاری خود کو منظرنامے کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے یہی محسوس ہوا کہ میں اپنی آنکھوں سے تمام مناظر ، مقامات اور کرداروں کو دیکھ رہی ہوں۔کہانی میں ناول کی سی دلچسپی ، تجسس اور روانی ہے۔ سچ کی بھٹی سے نکلے ہوئے ہر لفظ کا سیک روح تک پہنچتا ہے۔ استحصال کی بے رحم کڑی دھوپ میں ننگے پیر چلتے محمد خان ابڑو نے قاری کی سوچ کو بھی اپنے ساتھ جھلسایا ہے۔ جس زندگی نے آنکھ کھولتے ہی آنسو دیکھے، سماعت نے سیلاب کی پھیلائی تباہی کے نوحے سنے ، بچپن اور لڑکپن نے غربت، ہجرت، مشقت کیساتھ ساتھ 65اور 71کی جنگوں کا خوف جھیلا، سیہون کے ارد گرد گھومتی آپ بیتی ایک فرد کی نہیں پورے سماج کی کہانی ہے،تقسیم سے شروع ہونے والی بد اعتدالیوں ، قبضہ گیریوں اور طاقتوروں کے جارحانہ رویوں کی عکاسی ہے۔مذہبی،سماجی اور ثقافتی اقدار کا بیان ہے ، استحصال کے خلاف ڈٹ جانے کے عزم اور خود کو ثابت کرنے کے جنون کی داستان ہے۔ مصنف نے جس طرح ایک جہد مسلسل سے مشکلات کا سامنا کیا، بچپن کھیل کود اور شرارتوں سے نہیں مشقت سے عبارت تھا ،اسکول جانے سے پہلے ایندھن کے لیے گوبر اکٹھا کرنا اور پانی لانا اس کی ذمہ داری تھی جس کی وجہ سے اسکول پہنچتے ہوئے دیر ہو جانا اور مار کھانا معمول بن گیا تھا مگر تعلیم جاری رہنے کی خوشی توانائی دیتی تھا ،حوصلہ قائم رہتا،لڑکپن برف کے بھاری بلاک اٹھاتے گزرا۔لیکن پڑھنے اور آگے بڑھنے کا جنون کبھی سر سے نہ اترا۔ چھٹی سے دسویں تک کی کتابیں ایک ساتھ پڑھنا،گھر پر گرامر کی کتابوں سے انگریزی سیکھنا اور پھر کالج یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر لینا عام بات نہیں ہے۔جب وقت بچپن سے جوانی تک مزدوری اور مشقت کی ساری آزمائشوں سے گزار کر اس مِل تک لے آیا جہاں سخت محنت کرنے والے کو سینکڑوں جبکہ سفارشی منیجر کو لاکھوں میں تنخواہ دی جاتی تھی تو استحصال کے ساتھ ساتھ فرد کی بے توقیری کا مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو گیا تھا، یہیں سے زندگی نے نیا موڑ لیا، اس ٹریڈ یونین کی طرف راغب کیا۔جہاں رہنما بنکر معاملات سنوارے جا سکتے تھے ،زندگی کے تمام تلخ موسموں کا ذائقہ چکھنے والا ہی ایسے پلیٹ فارم کا بہترین قائد ثابت ہوتا ہے۔ ٹریڈ یونین کے سربراہ کے طور پر انسانی حقوق ، معاشی آزادی اور فرد کے وقار کی جنگ لڑ کر اپنا حق ادا کیا اور سرخرو ہوا ، ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے اور نامناسب حالات و واقعات کا شکوہ کرنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔ میرے بس میں ہو تو میں یہ کتاب نصاب میں شامل کر دوں۔سندھ اپنی مادری زبان سندھی سے جڑت کی وجہ سے تصوف، کلچر اور ادب کا گہوارہ ہے۔اپنی دھرتی اور علوم و فنون سے محبت ہر طبقہ فکر میں پائی جاتی ہے،راقم اور امتیاز عالم خصوصی طور پر لاہور سے شرکت کیلئے حاضر ہوئے ،اسکے علاوہ مدد علی سندھی سابق وفاقی وزیر تعلیم ،سید ناصر شاہ وزیر توانائی سندھ ،سید ذوالفقار شاہ وزیر ثقافت سندھ، احمد شاہ صدر آرٹس کونسل کراچی، تاج جویو ،احمد سولنگی، نادر مرزا مختار ملک، مسعودلوہار،عادل سومرو،ڈاکٹر عالیہ امام اور دیگر نے کتاب پر عمدہ گفتگو کی اور صاحب کتاب کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ ظاہر ہے زندگی کے طویل سفر کو ایک کتاب میں بند نہیں کیا جاسکتا ، امید ہے محمد خان ابڑو اپنے ذہن میں محفوظ یادوں کے مختلف سلسلوں کو کہانی کا روپ دینے کی کاوش کرتے رہیں گے۔