(گزشتہ سے پیوستہ)
قارئین کرام! ’’آئین نو‘‘ کے زیر نظر موضوع کی جاری پانچویں قسط (اشاعت 21دسمبر) میں آپ کو ملکی ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمینڈ) کی اس تشویش اور سات مطالبات سے آگاہ کیا تھا،جو انہوں نے کوئی تین سال قبل رجیم چینج کے بعد مسلسل خلاف آئین لگتی صحافتی پابندیوں پر اپنی طویل خاموشی و بے بسی کو توڑتے و ختم کرتے بالآخر لب کشائی کر دی اور ایمینڈ نے وزیر اعظم شہباز شریف، پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے یہ مطالبہ کردیا کہ سوشل میڈیا اور اظہار رائے پر غیرضروری پابندیاں صحافیوں پر درج مقدمات، انٹرنیٹ کی بندش اور پیکا آرڈی ننس ختم کیا جائے۔ ایسوسی ایشن کے اجلاس میں مبہم شقوں کی آڑ میں پیمرا کے غیر قانونی نوٹسز اور میڈیا اداروں کو مالی نقصان پہنچانے کے حربوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایمینڈ کے یہ ساتوں مطالبے و حکومتی حربے سرکاری مرضی و منشا کے مطابق قومی ابلاغی دھارا تشکیل دینے والے آلودہ اور مہلک نیشنل کمیونیکیشن فلو کی تشکیل کاسبب بن کر صحت مند قومی ابلاغی آپریشنز کو بری طرح ڈسٹرب کرتے سیاسی و آئینی و جمہوری عمل میں رکاوٹیں ڈالتا، بڑی مہلک شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس نے پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کے تیزی سے بڑھتے حجم کو ذریعہ خیر بنانے کے مخالف من مانی پابندیوں اور حکومتی ہتھکنڈوں سے اسے انتشار، تقسیم، خوف، غیر یقینی اور مسلسل پروپیگنڈے کا بڑا ذریعہ ابتری بنا دیا ہے۔ اتنی عقل نہیں کہ یہ قومی میڈیا بطور ابلاغی معاونتی نظام کے طور پر منتخب پارلیمان، عدلیہ اور بیوروکریسی سے کسی طور کم نہیں، اس لحاظ سے بڑھ کر ہے کہ:یہ معمول کے مطابق آئینی دائرے میں رہتے سیاسی و جمہوری عمل کو اپنی آزاد پیشہ ورانہ حیثیت سے رائے عامہ کی تشکیل حقیقی نیوز انفارمیشن سروس کی فراہمی اور کاروباری سرگرمیوں کی تقویت و رہنمائی کے ساتھ ساتھ گھر گھر تفریح و تعلیم عامہ کے بڑے ذریعہ ابلاغ کی حیثیت سے اپنی عظیم تر پیشہ ورانہ ابلاغی خدمات تواتر سے انجام دیتا،ریاستی اداروں کی بڑی ابلاغی ضرورتوں کو بھی پور ا کرتا ہے، لیکن آئین کا حلیہ بگاڑ کر اسے بھی آلودہ اور مہلک بنا دیا گیا ہے۔
قومی مین سٹریم روایتی میڈیا کے لئے ایک تو پیشہ وری، تنظیم، علانیہ و قانونی اونر شپ اور سوسائٹی کو مطلوب اعتماد(کریڈیبلٹی) ابلاغی معاونت کے کئی پہلوئوں سے محروم، لیکن مکمل آزاد منش (یا کچھ باجواز الزامات کے مطابق) مادر پدر آزاد سوشل میڈیا پہلے ہی اپنے سروائیول اور تحفظ ارتقاء کے بڑے چیلنج سے دوچار ہوگیا ہے، اوپر سے اگر پاکستان جیسے جاندار قومی ابلاغی تاریخ و اثاثے کے حامل قومی میڈیا کو جگاڑ سے چلانے کی مہم جوئی میں مبتلا ہوکر خود بھی آمرانہ مہم جوئی سے بنی حکومت خلاف آئین جگاڑ پر جگاڑسے پابندیوں ہتھکنڈوں اور خوفزدہ کرکے خود ہی ملکی میڈیا چلانے لگے تو اس سے بڑھ کر گورننس کا ڈیزاسٹر اور کیا ہو سکتا ہے۔ عوام دشمن عشروں کی حکومتی کرپشن، بیڈ گورننس اور ملک بھر کا متنازعہ ترین حکومتی ڈھانچہ اور عوام کا اعتماد کھوئی منقسم عدلیہ کیا۔
اڑھائی تین سال میں لٹے پٹے اجڑے ادارے کیا کم تباہی ہے جو ملکی نظام ابلاغ و صحافت کو بھی اتنے بڑے بڑے جگاڑوں سے چلایا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی کھلواڑ سے ادارے اپنے کردار سے ہٹ گئے تو میڈیا اس صورتحال کوسنبھالنے کا کردار ادا کرتا جو کر بھی رہا تھا لیکن اسے اچک کر اس کا بھی عوام پراعتماد کم تر کر دیا گیا۔نتیجتاًسوشل میڈیا جو اپنی سحر انگیز ٹیکنالوجی (چینلز) کے بل بوتے پر بے روزگار نوجوانوں کو بھی بغیر مطلوب تعلیم و تربیت کے صحافی بنانے کا کرشمہ دکھا سکتا ہے، اس نے دنیا بھر میں خصوصاً پاکستان کے موجود ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ (دور ابتری) میں اپنے اتنے تاریخی کردار کے حامل روایتی مین اسٹریم میڈیا کو سوشل میڈیا کے مقابل مغلوب کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ بہت طویل ٹیکنیکل پیشہ ورانہ اور اہم علمی مکالمہ ہے، جو شدت سے ملک میں مطلوب ہے کہ پاکستان کی موجود ابترو مضطرب کیفیت جس میں تقسیم و انتشار، غیر یقینی، خوف و اضطراب، بدنیتی و جھوٹ اور پروپیگنڈے کا غلبہ ہے اور یہ سب کچھ غیر آئینی سیاسی کھلواڑ کے زور، انتہا کی دیدہ دلیری اور خلاف علم و دستور و اخلاق کیا گیا، عجب ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی استحکام برائے بحالی و معاشی کی فکر کے دعوئوں، نیت اور کچھ بے نتیجہ یا کم تر نتائج کے حامل اقدامات کے ساتھ ساتھ کیا جا رہا ہے، تبھی تو ناچیز وطن عزیز کے اس دور کو تکرار سے ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ قرار دے رہا ہے۔ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ ہماری فقط 77سالہ تاریخ کے اس عجب دور میں متنازعہ حکمران عوام کو اپنے ابلاغ و کردار و افعال سے مسلسل خوفزدہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں، اور خود بھی ڈرے ’’مرے‘‘ عوام سے ڈرئے ہوئے ہیں۔ تبھی تو یہ دور ابتری بھی ہے، کیا ہوگیا پاکستان کو؟ لیکن پاکستان بہرحال مملکت خداداد ہے، عوام ڈر کر بھی اب نہیں ڈرتے، نہیں اختلاف کہ سوشل میڈیا میں بھی بہت کچھ غیر ذمہ دارانہ اور پریشان کن ہے لیکن یہ بھی مان لیا جائے کہ اس دور ابتری میں بری طرح ڈسٹربڈ (بمطابق آئین) اسلامی جمہوریہ کےپریشان حال عوام کے مورال کو قائم دائم رکھنے کا کوئی موثر ذریعہ مسلسل رہ گیا ہے تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ اس پر دلائل کے ڈھیر لگائے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ ضرور ذہن نشین کرلیا جائے کہ پرابلم سولونگ آپریشنز میں سب سے بڑا رول عقل سلیم اور عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ مطلوب معیار کے ابلاغ کا ہی ہوتا ہے اور ابلاغ کی حکمت عملیوں میں خوف (فیئر) وہ حکمت عملی ہوتی ہے جوسب سے زیادہ متنازعہ ہے جسے کمیونیکیشن سائنٹسٹ ممکنہ حد تک استعمال نہ ہی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، یہ صرف انتہائی مخصوص کمیونیکیشن آپریشنز میں کار آمد ہوتی ہے ہمارے گزشتہ دوسالوں سے اس کا بے دریغ استعمال کرکے پاکستان کو ناقابل پیمائش نقصان پہنچایا گیا ہے۔
وما علینا الالبلاغ (جاری ہے)