• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلی کا گھمبیر ہوتا ہوا چیلنج اور آبادی میں تیز رفتار اضافہ ایسے مسائل ہیں جو ملک کی ترقی اور بہتر مستقبل کے راستے کی بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک طرف ہمارے ہاں ان مسائل پر سنجیدگی کا فقدان ہے اور دوسری طرف ہمیں ان مسائل کا مقابلہ کرنے کے لئے وسائل کی کمی کا چیلنج درپیش ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آبادی کے اعتبار سے بھی پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ تاہم فی کس آمدنی کے لحاظ سے ہم 161ویں اور جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے 138 ویں نمبر پر ہیں۔ ہماری شرح افزائش اور ترقی کی شرح تقریباً دو فیصد ہے یعنی آبادی میں اضافے کے اعتبار سے ہماری ترقی کی شرح صفر ہے جبکہ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح نمو کے ساتھ پاکستان کو سالانہ 20 لاکھ ملازمتوں اور 10 لاکھ گھروں کی ضرورت ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جہاں غذائی قلت کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ہر اضافی شخص کاربن کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان زیادہ متاثرہ ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے فصلوں کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے زرعی سائنسدان طویل عرصے سے یہ نشاندہی کر رہے ہیں کہ آبادی میں اضافہ جنگلات اور زرعی رقبوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ ثابت ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران درختوں کی تعداد میں ایک فیصد کی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لیے 2017 سے 2020 کے درمیان پاکستان کی قابل کاشت اراضی میں تین فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی بارشوں کے انداز میں خلل ڈال رہی ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، خشک سالی اور سمندری طوفان آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں جس سے معاشی تنزلی کے خطرات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین ماحولیات نے پیشن گوئی کی ہے کہ گرمی اور سردی کے موسم میں شدت کا رجحان 2027ءتک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں موسمیاتی تبدیلی کی گفتگو بنیادی طور پر کاربن کے اخراج میں کمی کی حکمت عملی پر مرکوز ہے جبکہ آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں تعلق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ پاکستان کو درپیش موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے اور آبادی میں اضافے کی بے ہنگم شرح میں کمی کے لئے پاکستان کو چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین نے بڑھتی ہوئی آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے 1979 میں جو پالیسی بنائی تھی اس پر سختی سے عملدرآمد کا نتیجہ ہے کہ آج کا چین تعلیم، صحت کی سہولیات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ہمہ پلہ ہے۔ پاکستان چین کے اس تجربے سے سیکھ کر عوامی آگاہی بڑھانے، صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی اور معاشی ترغیبات کے ذریعے چھوٹے خاندانوں کی حوصلہ افزائی کرکے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پا سکتا ہے۔ چین نے دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی کی ہے۔ چین نے قابل تجدید توانائی کے ذرائع شمسی، ہوائی اور ہائیڈرو پاور جیسے ماحول دوست منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے کوئلے پر انحصار کم کیا ہے۔ یہ ماڈل پاکستان کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کیونکہ ہم ابھی بھی بڑی حد تک فوسل فیول پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے’’گریٹ گرین وال‘‘ منصوبے کے تحت اربوں درخت لگانے کے منصوبے کی کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے شہروں کے اطراف اور صحرائی علاقوں کو سرسبز بنا کر کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں چین نے گرین ٹیکنالوجی اور ایجادات میں بھی بڑی سرمایہ کاری کی ہے جیسے الیکٹرک گاڑیاں اور جدید ری سائیکلنگ سسٹم۔ پاکستان اس حوالے سے چین کی ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور اپنے بنیادی ڈھانچے کو ماحول دوست بنانے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دے سکتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان اور چین کے درمیان پہلے سے موجود دو طرفہ تعاون کو ماحولیاتی پائیداری، آبادی کے کنٹرول اور پائیدار وسائل کے انتظام کے لیے پالیسیوں کی ترقی میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت بالخصوص پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں چین کے ساتھ تعاون بڑھانے میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین نے پنجاب کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس سلسلے میں ابتک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق چین نے ماحولیات کے ماہرین کی ٹیم کو تحقیق کرنے اور پالیسی سفارشات پیش کرنے کے لیے لاہور بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی کمپنیاں پنجاب میں ایئر کوالٹی مانیٹرنگ اسٹیشن بنانے کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر فضائی آلودگی کی روک تھام اور صنعتوں کو گرین انرجی پر منتقل کرنے کے حوالے سے بھی تعاون کا یقین دلایا ہے۔ پاکستان میں چین کے کونسل جنرل نے بھی حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں دونوں دوست ممالک کے مابین موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی چیلنجز پر تعاون کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے دو طرفہ باہمی دوستی کے رشتے کو مضبوط بنانے کیساتھ ساتھ سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی پائیدار ترقی کو فروغ دینے، صنعتوں کو ماحول دوست بنانے اور قدرتی آفات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کے حوالے سے چین اور پاکستان کا تعاون دیگر ترقی پذیر ممالک کیلئے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔

تازہ ترین