اقوام متحدہ کے فیصلے دیکھ کر مجھے اکثر اوقات حضرت ِ اقبال یاد آجاتے ہیں جنہوں نے اسے ’’کفن چوروں کی انجمن‘‘ قرار دیا تھا ۔ابھی دوتین روز پہلے پاکستان نے افغان صوبے پکتیکا میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی کی جس میں اہم کمانڈرز سمیت اکہترسے زائد دہشت گردہلاک ہوئے۔ ایک خود کش جیکٹ بنانے والی فیکٹری اور دہشت گردوں کو تربیت دینے والےچارمراکز تباہ ہوئے مگر اقوام متحدہ یعنی داشتہ ِ پیرک افرنگ نے بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے ۔اس کےامدادی مشن نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں عام شہری مارے گئے۔ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے ۔قانون فوجی دستوں کو شہریوں کو نقصان سے بچنے کیلئے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا پابند کرتا ہے۔ اسلئے اس سلسلے میں تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔یونیسف نے الزام لگایا کہ ’’مرنے والوں میں بیس بچے شامل ہیں‘‘۔ طالبان حکومت نے الزام لگایا کہ ’’چھیالیس مرنے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں۔‘‘ یہ جنہیں بچے کہہ رہے ہیں وہی زیر تربیت نوجوان دہشت گرد ہیں۔
یعنی یہ الزامات صریحاً جھوٹ پر مبنی ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں لگائے جارہے ہیں۔ جب امریکہ افغانستان پر بمباری کرتے ہوئے سینکڑوں شہری شہید کر دیتا تھا تو اس وقت اقوام متحدہ کی جنبشِ ابرو بھی بھاری نہیں ہوتی تھی۔ جب امریکی ڈرون مسلسل خواتین اور بچے شہید کر رہے تھے تو اس وقت یونیسیف خوابِ خرگوش سے لطف اٹھاتا تھا۔ پکتیکا میں فضائی حملوں کی تاریخ ویسے تو سوویت یونین کے حملوں سے شروع ہوتی ہے مگر سب سے زیادہ حملے نیٹو افواج نے کیے جو تقریباً دو ہزار ایک کے اختتام سے شروع ہوئےاور دو دہائیوں تک جاری رہے۔ ان حملوں میں جنگی طیارے، ڈرون طیارے اور ہیلی کاپٹرز شامل رہے۔ پکتیکاچونکہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے، وہاں خاصی شہری آبادی بھی ہے۔ اسلئے نیٹو افواج کے فضائی حملوں سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں اور زخمی ہونے کے خاصے واقعات رپورٹ ہوئے ۔انہی کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ پاک فضائیہ کی کارروائی پر بھی الزام عائد کیا گیا حالانکہ پاک فضائیہ نے صرف ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔ دنیا جانتی ہے کہ خوارج نے اپنا ہیڈ کوارٹر پکتیکا میں بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام وارداتوں کی منصوبہ بندی وہیں ہوتی ہے۔پکتیکا افغانستان کے مشرقی حصے میں واقع وہ صوبہ ہے، جس کی سرحدیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملتی ہیں۔ اس لئے اسے پورے جنوبی ایشیا میں اسٹرٹیجک اہمیت حاصل ہے۔ یہ صوبہ سرحدی تنازعات، سرحد پارغیر قانونی نقل و حرکت اور دہشت پسندوں کی پناہ گاہوں کے سبب بہت معروف ہے۔ نیٹو افواج جب افغانستان میں داخل ہوئیں تو پکتیکا ایک جنگی میدان بن گیا۔ پاکستانی سرحد قریب ہونے کے سبب شروع سے پاکستانی طالبان کے تمام گروپ بھی وہاں موجود رہے۔ وہ اسے اپنی محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ افغان طالبان کی حکومت نے اس علاقے میں اپنی حکومتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کیلئے یہاں عوامی خدمات فراہم کرنےکے نام پر ٹی ٹی پی کے لوگوں کو تحصیلوں میں اہم عہدوں پر فائز بھی کیا۔ یہ افغان پختونوں کا مسکن ہے، افغان تاریخ میں کئی اہم ثقافتی اور جنگی واقعات کا گواہ رہا ہے۔ یہاں پختون قبائل نے اپنی خودمختار حکومتیں بھی قائم کیں۔ میں نے پکتیکا کو ہمیشہ اس کی خوبصورت وادیوں، اونچے پہاڑوں اور تند و تیز دریائوں کی وساطت سے پہچانا تھا کبھی اس بات پر دھیان نہیں دیا تھا کہ یہ علاقہ صدیوں سے جنگ و جدل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔میں نے جب اس کی جنگی تاریخ پر نظر ڈالی تو مجھے نظر آیا کہ مغلیہ دور سے یہ علاقہ جنگ میں مصروف ہے۔ مغلیہ سلطنت اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس پر مکمل طور پر کنٹرول نہ کر سکی ۔مغلوں کے مخالف خوشحال خان خٹک بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا گائوں پکتیا اور پکتیکا کے سرحدپر واقع تھا۔ مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوتے ہی یہ علاقے قبائلی جنگوں کا شکار ہو گئے۔ یعنی مقامی قبائل نےایک دوسرے کے خلاف بھی لڑائیاں شروع کر دیں۔ برطانوی سلطنت نے بھی افغانستان میں اپنی مداخلت کے دوران پکتیکا کے علاقوں میں افغان فوجیوں اور مقامی قبیلوں کے ساتھ شدید لڑائیاں کیں۔ اگرچہ برطانوی افواج کامیاب نہیں ہوئیں مگر اٹھارہ سو انتالیس سے لے کر انیس سو انیس تک لڑائی کا ماحول ہی برقرار رہا۔ اس کے بعد جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان داخل ہوئیں تو ان کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اسی صوبے کے قبائل نے کی۔ امریکہ اور نیٹو افواج سے بھی تقریباً یہی نبرد آزما رہا۔ اس کی بنیادی وجہ اس علاقہ کے لوگوں کی جنگی حکمت عملی ہے۔ پکتیکا کی زمین چونکہ پہاڑوں، وادیوں اور دریائوں پر مشتمل ہے اسلئے مقامی جنگجو گوریلا وار لڑتے ہیں۔چھاپہ مار کارروائیاں، پہاڑی راستوں پر جنگیں اور سرنگوں کا استعمال ان کی حکمت عملی شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف یہی حکمت عملی استعمال کی اور یہی پکتیکا کو ایک جنگی گڑھ بنانے میں کامیاب رہی۔ اس وقت کی افغان حکومت کو چاہئے کہ پاکستان پر الزام لگانے کی بجائے وہ اس صوبے کا مزاج بدلنے کی طرف توجہ دے اور یہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرے۔