• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موت کی مانگ بڑھ گئی اتنی کہ.... زندگی منہ چھپائے پھرتی رہی

جان ہے تو جہاں ہے۔ صحت ہے تو زندگی کی روانی ہے۔ صحت مند افراد ہی کامیاب قوم کی ضمانت ہوتے ہیں۔ 2024کے منظر پر نظر ڈالیں تو یہاں دھواں اور مٹی سے آلودہ فضا میں کمسن چھوٹے بچوں پر پولیو کی عفریت حملہ آور ہوئی۔ خناق بچوں کو ، کثیر اولادی کی جونکیں کمزور اور ناتواں عورتوں کا خون چوستی رہیں۔ نوجوانوں کو منشیات کی لعنت موت کی جانب گھسیٹتی رہی۔ملیریا اور ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کے چھتّے لوگوں پر حملہ آور ہوئے۔ اسموگ فضا میں بڑھتا رہا۔ 

بیماریوں سے بچاؤ کیلئے جس شعور، آگہی اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سے نا آشنا ہیں ،اسی وجہ سے ہم بیاریوں سے بچاؤ اور علاج معالجہ کے جدید طریقوں سے استفادہ حاصل نہیں کرپائے۔

صحت کبھی بھی ارباب اختیار کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ 26ویں آئینی ترامیم سے عام آدمی کی صحت پر کوئی اثر نہیں  ہوسکتا۔ اس کے لئے حکمرانوں کو سنجیدگی کے ساتھ اورعوام کا بھی اپنی صحت کیلئے سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے، مگر یہاں ریاست اور شہری کا رشتہ استوار نہیں۔ 

اس وقت ملک کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہے۔ اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ 2024میں ملک کا برتھ ریٹ 25.578 پر 1000لوگ تھا، یہی رفتار رہی تو 2050 تک ہماری آبادی دگنی ہوجائے گی، گو کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں مگر آبادی کا بم ایٹم بم سے ذیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔

25-2024 کے ترقیاتی بجٹ کا مجموعی حجم 14سو ارب روپے مختص کیا گیا ، جس میں وزارت صحّت کیلئے 127ارب روپے، جب کہ PSDP پروگرام میں 25.3ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جی ڈی پی۔ کا 6فی صد صحت پر خرچ ہونا چاہئے لیکن ہم اپنی قومی پیدوار کا2.1 فی صد صحت پر خرچ کررہے ہیں۔ 

صد اطمینان کہ حکومت سندھ نے 25-2024 کیلئے 1300ارب رکھے ہیں جو پچھلے سال سے 32% فی صد ذیادہ ہیں۔ دوسری طرف حکومت پنجاب نے 25-2024 کیلئے صحت کی مد میں539.1 ارب رکھے ہیں جو پچھلے بجٹ سے 24% فیصد زیادہ ہیں۔

یہ تعلیم کی کمی ہے یا وسائل کی یا پھر شعور کی کہ آج بھی ملک میں جابجا اطائی ڈاکٹرز اور حکیم انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، ساتھ ہی لوگوں کی بڑی تعداد جعلی پیروں اور باباؤں کے چکر میں اپنی زندگی اور عزت داؤ پر لگارہی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر اشتہارات سے متاثر ہوکر علاج کررہی ہے یا پھر میڈیکل اسٹورز سے دوا خرید کر خود ہی علاج کررہے ہیں۔ ابھی تک ملک میں کوئی قانون نہیں کہ اس طرح دوا کی خرید و فروخت پر پابندی ہو۔

2024 میں بھی ملک کے بیشتر حصوں میں تعلقہ اسپتال اور صحت کے مراکز میں غیر اطمینان بخش صورت حال رہی۔ دوائیں ڈاکٹرز اوردیگر بنیادی سہولتیں ناپید ،اسپتالوں کے متعدد شعبے غیر فعال رہے۔ مشینری خراب یا چوری ہوگئی۔ الٹرا ساؤنڈ ایکسرے ،ایمبولینس اور دیگر سہولیات کافقدان رہا۔

سرکاری اسپتالوں میں کروڑوں روپے کی ادویات خریدی جاتی ہیں ،جس کی بڑی تعداد مستحق مریضوں کو ملنےکے بجائے انتظامیہ کی ملی بھگت سے میڈیکل اسٹورز پر فروخت ہوجاتی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ہر روز دوائیوں کی قیمتوں خصوصاً جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو تارہا  شوگر، بلڈ پریشر اور معدے کی تکالیف کی دوائیں عام لوگوں کی دسترس سے دور رہیں اور زیادہ تر انکی قلت ہی رہی۔ ادویات کی قیمتوں میں سالانہ بینادوں پر 23.33فیصد اضافہ ہوگیا۔

بچوں کی صحت پر نظر ڈالیں تو2024 میں یونسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں  میں54.657 اموات ہر ہزار بچوں کی پیدائش پر ہورہی ہے۔ یہ تعدا 2023 کے مقابلے میں 2.01 فی صد کم ہے۔ 5 سال سے کم عمر بچوں  کے اعداد وشمار کے مطابق ایک ہزار میں سے65بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ان کی اموات کا ذیاد تر سبب غذائی قلت آلودہ پانی، صفائی ستھرائی کی کمی، نمونیہ اور ڈائریا ہے۔

اقوام متحدہ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 58فیصد بچے خوراک کی کمی کاشکار ہیں، 5سال سے کم 40 فی صد بچوں کا وزن کم جبکہ 18 فی صد بچوں کی جسامت اور قد چھوٹا ہے۔ تھرپارکر میں ایک ماہ میں غذائی قلت اور اس سے متعلق بیماریوں میں مبتلا 35 بچے فوت ہوئے، جب کہ غذائی قلت سے موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی تعداد 416 ہے۔ خیر پور ناتھن شاہ کے ضلعی اسپتال میں ایک ماہ کے دوران غذائی کمی اور قبل از وقت پیدا ہونے والے 37 بچے موت کا شکار ہوئے۔

یونسیف اور PPA کی پارٹنر شپ میں(SICHN) سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوٹیکنالوجی نے جون 2024 میں  دارالعلوم کراچی سے فتویٰ حاصل کرنے کے بعد ملک میں پہلا ہیومن ملک بینک قائم کیا تھا تاکہ قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کو جنھیں اکثر ماں کا دودھ پورا میسر نہیں ہوتا، وہ غذائی قلت اور انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں، انہیں بچایا جاسکے۔ 

پاکستان میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں اموات کا تناسب 39/1000 ہے جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے مگر 16؍ جون 2024ء کو دارالعلوم کراچی کی جانب سے ایک اور نظرثانی فتویٰ جاری کیا گیا جس کے بعد ہیومن ملک بینک کی فعالیت کو روک دیاگیا حالانکہ اس میں تکنیکی اعتبار سے مسلم بچوں کو مسلم ماؤں کا دودھ، رضاعیت اور رشتہ داری کا مکمل ریکارڈ رکھا جارہا تھا۔

یہ منصوبہ اب بند ہوچکا ہے جبکہ ’’ہیومن ملک بینک‘‘ ایران اور ملائشیا سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھی مو جود ہیں۔ پاکستان میں آلودہ پانی اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال کیوجہ سے قریباً 53000؍بچے دست اور اسہال کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ آلودہ پانی ہی کی وجہ سے بچے اور بڑے ٹائیفائیڈ، ڈائریا، پیٹ کےکیڑوں اور ہیپاٹائٹس کاشکار ہوگئے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں نمونیہ اور سانس کی بیماریاں بہت زیادہ ہوئیں ، تقریباً 58000؍ بچے نمونیے سے فوت ہوئے۔ نمونیئے کی ویکسین EPI پروگرام میں شامل ہے۔ 

تشویش ناک بات تو یہ بھی ہے کہ خسرہ،خناق اور پولیو ویکسین EPI پروگرام میں شامل ہے مگر لوگوں کا بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے معاملے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ ان بیماریوں میں اضافے کا سبب بنا۔ 2024ء میں صرف سندھ میں خناق کے 166؍ کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 28؍اموات ہوئیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اس کے علاج کی 500؍اینٹی ٹوکسن ادویات حکومت سندھ کو عطیہ کیں۔ خناق میں مبتلا بچوں کے علاج کیلئے اینٹی ٹوکسن ادویات پر ڈھائی لاکھ روپیہ خرچ آتا ہے جبکہ حفاظتی ٹیکہ مفت لگتا ہے۔ 

پاکستان دنیا بھر میں خسرہ سے متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ 2024ء کے پہلے پانچ ماہ میں خسرہ کے 3400؍ کیس رپورٹ ہوئے ،تقریباً 120؍ بچے فوت ہوئے۔ میرپور میں ایک ہی گھرکے 3؍ بچے خسرہ سے فوت ہوئے ۔ اب ذرا بات کر تے ہیں پولیو کی، جس کا خاتمہ پوری دنیا میں ہوچکا ہے، صرف وطن عزیز اور افغانستان میں نہیں ہوا۔ دنیا ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے اور ہم پولیو کو شکست دینے میں ناکام ہیں ،یقیننا یہ بڑی تشویشناک صورتحال ہے۔

پاکستان کے 20؍ اضلاع سے حاصل ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ غذائی قلت بچوں کی خراب صحت، آلودہ پانی اور صفائی کے ناقص انتظامات کے علاوہ ویکسین کےخلاف مزاحمت اور منفی پروپیگنڈا بھی اس خطرناک بیماری پر مکمل قابو پانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ 

کتنی پریشان کن بات ہے کہ 2021ء میں پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا 2022ء میں 20؍ کیس رپورٹ ہوئے اور 2023ء میں صرف 5؍ جبکہ نومبر 2024ء میں 60 سے زیادہ کیس رپورٹ ہوچکے تھے۔ وفاقی دارالحکومت میں 16؍ سال بعد پہلی بار پولیو کا کیس رپورٹ ہواہے۔

انسداد پولیو مہم کے دوران 2؍ کروڑ 40؍ لاکھ سے زیادہ بچوں کو قطرے پلانے کیلئے 14؍ لاکھ سے زیادہ پولیو ورکرز حصہ لیتے ہیں اور پولیو ٹیموں کی حفاظت کیلئے صرف KP میں 33؍ ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ۔ وہ پولیو ورکرز جو ہمارے بچوں میں زندگی بانٹنے آتے ہیں ہم ان سے زندگی چھین لیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں گزرے سال انسداد پولیو ٹیموں پر 15؍ حملوں میں 13؍ اہلکار شہید اور 36؍زخمی، کوئٹہ میں 4؍ ورکرز ، ٹانک میں 2؍ پولیو ورکر شدید زخمی ہوئے۔

دوسری طرف کوئٹہ میں 500؍ سے زائد پولیو ٹیموں کا جعلی مہم چلانے کا بھی انکشاف ہوا۔ جو بغیر قطرے پلائے بچوں کو نشانات لگارہے تھے۔ میانوالی اور ٹھٹھہ میں پولیو ورکرز پر گھر کا دروازہ بجانے پر شدید تشدد کیا گیا، انتہائی شرمناک واقعہ جیکب آباد میں پیش آیا جہاں لیڈی پولیو ورکر کو مسلح افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ 

ان رویوں کے ساتھ کیا ہم پولیو کو شکست دے سکتے ہیں؟ کیا پولیو فری پاکستان کا خواب کی تعبیر پاسکیں گے؟ کب ہم حفاظتی ٹیکوں کے معاملے میں مزاحمتی رویہ اختیار کرنے کی بجائے بیماریوں کے خلاف مزاحمت کریں گے؟

خواتین کی صحت پر بات کریں تو منفی عدم مساوات کے شکار معاشرے میں صحت کی سہولیات تک رسائی کا حق بہت کم خواتین کو حاصل ہے۔ ان کی اکثریت غذائی قلت اور خون کی کمی کا شکار ہے۔ اس حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ حاملہ خواتین میں خون کی کمی سے 9؍ لاکھ 18؍ ہزار 154؍ نئے کیس سامنے آئے۔ 

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاکتوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ یہاں میٹرنل مورٹیلٹی ریشو (MMR) 186ہے۔ بلوچستان میں MMR سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ایک لاکھ میں298؍ مائیں زچگی کے دوران فوت ہوجاتی ہیں، وجوہات میں (PPH) خون کا زیادہ ضائع ہوجانا، ہائی بلڈپریشر اور انفکشن ہے۔

پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح سب سے زیادہ ہے ،جو خواتین میں موت کی دوسری بڑی وجہ بن ہے ،تقریباً 245؍ عورتیں ہر روز چھاتی کے سرطان کا شکار ہورہی ہیں ہر 9؍ میں سے ایک عورت کو اس کا خطرہ ہے۔ آگہی کی بہت ضرورت ہے۔ بر وقت تشخیص اور علاج ہی اس کا وا حد حل ہے ۔ دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ’’پنک ربن‘‘ خواتین میں آگہی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

پاکستانی عورتوں میں ہڈیوں کا بھربھراپن یا آسٹیوپروسس کا مرض بھی بڑھ رہاہے 6.5-49.3 فیصد خواتین اس کا شکار ہوئیں اس طرح22.4 فیصد عورتیں وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ 2024ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہائی بلڈپریشر کی شرح 44؍فیصد ہوگئی ہے ،جبکہ عالمی اوسط 33؍ فیصد ہے,30؍ فیصد افراد امراض قلب میں مبتلا ہوکر زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک کا تناسب بڑھ رہاہے۔ذیابیطس کا مرض تیزی سے بڑھا، ہر چوتھا پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہورہا ہے۔ پاکستان بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کو بروقت علاج اور طبّی معاونت فراہم کرنے کیلئے تین ہزار ذیابیطس کلینکس کانیٹ ورک قائم کیا گیا ہے جہاں75 ہزار مریضوں کو روزانہ علاج اور راہنمائی فراہم کی جائے گی۔ اس وقت پاکستان میں ہر5 میں سے ایک شخص gstso qesophageal reflux disease (GERD) میں مبتلا ہے 20-25 فی صد آبادی متاثر ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ جہاں ہیپاٹائٹس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وقت قریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں،جبکہ70 فی صد لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ہیپا ٹائٹس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ملک میں اور بہت سارے صحّت کے مسائل کے ساتھ سگ گزیدگی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ، جبکہ کتے کے کاٹے کی ویکسین اکثر جگہوں پر دستیاب نہیں ہے۔ 

جب معاشرے میں دو پاؤں والے کتے عورتوں اور بچوں پر حملہ آور ہورہے ہوں تو وہاں4 پاؤں والے کتوں کیلئے کیا کہا جائے ۔ کتا مار مہم اس لئے شروع نہیں کی جاسکتی کہ جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ٹنڈو الہیار میں آوارہ کتے نے ایک ہی خاندان کے7 افراد کو جھنجھوڑ ڈالا۔

لاڑکانہ میں ایک ہی دن میں 20 افراد کو ،میہڑ میں 30 افراد کو میرپور میں 15 افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹا، پھلیلی میں 5 بچوں کو اورصالح پٹ میں7 بچوں کو کتوں نے کاٹا،جب کہ 2 بچے ہلاک ہوگئے ۔لیکن کہیں کوئی احتجاج نظرنہ آیا۔سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود سگ گزیدگی کے لئے ہیلپ لائن اب تک بحال نہیں ہوسکی ہے۔

نیشنل ایڈز پروگرام کے مطابق 2024 میں 68231کیس رپورٹ ہوئے،جن میں صرف سندھ سے1453 کیس رپورٹ ہوئے ۔ ملتان میں ڈایالائسز سینٹر میں 30 مریضوں میں AIDS کی تشخیص ہوئی ، جنہیں متاثرہ خون لگا دیا گیا تھا۔ پاکستان میں اس وقت 290000 بالغ اور بچے اس مرض میں مبتلا ہیں۔

آلودہ پانی سے پھیلنے والی خطرناک بیماری ٹائیفائڈ ہے۔ پاکستان خصوصاً سندھ میں XDR ٹائیفائڈ یعنی ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والا میعادی بخار پھیلا، جسکا علاج انتہائی مشکل ہے۔ WHO کا فوکس اس سلسلےمیں سندھ پر ہے۔ دوسری جانب آلودہ پانی کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد میں  نیگلیریا کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

ملک بھر میں مچھروں سے پھیلنے والے امراض ملیریا ،ڈینگی اور چکن گونیا میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔ مچھر مار اسپرے یا فیومیگیشن مہم شاذ و نادر  ہوئی۔ صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ، گندے پانی کے جوہڑاس بیماری کی بڑی وجہ ہیں۔ گزرے سال سندھ میں دو لاکھ 49 ہزار 151 افراد ملیریا کا شکار ہوئے، صرف کراچی میں 1768 کیس ،جب کہ KP میں 54 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔

اس کے علاوہ کراچی میں ڈینگی کے 1484کیس ، لاہور میں صرف ایک دن میں 85 کیس رپورٹ ہوئے۔ کراچی میں چکن گونیا کے 172 کیس رپورٹ ہوئے۔ سندھ کے کچھ اضلاع میں 18لاکھ مچھردانیاں اور ایک لاکھ 25ہزار افراد میں ملیریا سے بچاؤکی ادویات بھی تقسیم کی گئیں جو بہت اچھا قدم ہے، پر ناکافی ہے۔

پاکستان میں کراچی ائر پورٹ سے MPOX کے 2 کیس رپورٹ ہوئے جسکے بعد ملک بھر کے داخلی راستوں پر اسکریینگ شروع کردی گئی ۔

2024 میں کوئٹہ میں کانگو وائرس سے متاثر 34مریض رپورٹ ہوئے، جن میں سے 9کا انتقال ہوگیا۔

وطن عزیز میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں  اضافہ ہوا۔ ہیٹ ویو سے ذیادہ تر بچے اور بزرگ متاثر ہوئے صرف کراچی میں 1700 کیسز ہیٹ اسٹروک یا لو لگنے کے رپورٹ ہوئے، جن میں سے 10 افراد کی موت واقع ہوگئی۔

2024 میں ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن میں  اضافہ ہوا۔  منشیات کا استعمال بھی بڑھا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 8 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں جبکہ اس میں سالانہ 50 ہزار نئے افراد شامل ہورہے ہیں جن میں 78 فی صد مرد اور 22 فی صد عورتیں ہیں ۔تشویش کی بات یہ ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے ،جن میں 43 فی صد طلبہ ہیں۔ 

گٹکا، مین پوری، سگریٹ، بھنگ وغیرہ کو تو نشہ سمجھاہی نہیں جاتا، کیوں کہ ملک میں اب کیمیکلز والے نشے، ہیروین، کوکین، آئس اور شیشہ عام ہورہا ہے۔ اسکولوں کے باہر اور ٹریفک سگنلز پر نشہ آور اشیاء آسانی سے دستیاب ہیں بلکہ اب تو آئن لائن سہولت بھی ہے۔ شیشہ کیفے کے ساتھ ساتھ شہروں میں  ویپ کیفے بھی بن رہے ہیں۔

فروری2024 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر سال قریباً ڈھائی لاکھ افراد T.Bکے باعث جان سے ہاتھ دھورہے ہیں، جبکہ مکمل علاج سے یہ مرض ٹھیک ہوجاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحّت کے مطابق پاکستان میں 8 کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ 42 فی صد آبادی نفسیاتی وجوہات کی بناپر منشیات کا استعمال کررہی ہے۔

ذہنی مسائل میں مبتلا افراد اور علاج کے سلسلے میں مدد کیلئے میرخلیل الرحمٰن فاؤنڈیشن ،کر ٹش ایشین ٹرسٹ اور پاکستان ہیلتھ کوئلیشن کے تحت قومی سطح پر ذھنی صحت سے متعلق آگہی کیلئے ایک سالہ مہم ’’ مل کر آئوبات کریں‘‘شروع کی گئی۔ اُمید ہے کہ ذہنی صحت کے متعلق عوام کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ انھیں آگہی ملے گی اوران کے رویئے بہتر ہونگے۔

اب بات کریں ملک میں فضائی آلودگی اور سموگ کی۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے دوسرےنمبر پر ہیں، جسکا ذیادہ تر سبب ٹریفک اور فصلوں کی باقیات کا جلانا ہے۔ پچھلے دنوں لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے بھی ذیادہ ہوگیا ،جو عالمی ادارہ صحت کے معیار سے 40 گنازیادہ ہے۔ 

پنجاب میں تعلیمی ادارے بند کردیئے اور گرین لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔ فضائی آلودگی اور اسموک آنکھوں، ناک کان گلے اور جلدی بیماریوں  کے علاوہ دمہ اور کینسر کا سبب بھی بنتے ہیں۔ فضائی آلودگی کے سبب اموات کی تعداد 90 ہزار سالانہ ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کے خاتمے سے پاکستانی شہریوں کی متوقع اوسط عمر چار سال تک بڑھ سکتی ہے ،جبکہ موجودہ حالات میں زندگی اوسطاً9 ماہ کم ہورہی ہے۔ 

صحت کے ان تمام مسائل کے ساتھ وطن عزیز میں کئی ادارے اور اسپتال آج بھی مریضوں کو بہترین علاج کی سہولیات مفت فراہم کررہے ہیں۔ SIUT ان میں سرِ فہرست ہے جہاں گردوں کے امراض کا بہترین علاج مفت کیا جارہا ہے۔

NICVD کراچی ، لاڑکانہ، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان ، سیون، مٹھی، اور خیرپور میں دل کے امراض کا علاج جدید خطوط پر کررہا ہے۔ انڈس اسپتال کراچی میں ہر قسم کا جدید علاج بالکل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔

LRBTآنکھوں کے امراض کا اسپتال ہے جہاں غریب مریضوں کو آنکھوں کی روشنی مفت عطا کی جاتی ہے ۔ جناح اسپتال کراچی میں سائبرنائف کے ذریعے کیسز کے مریضوں کامفت علاج کیا جارہا ہے۔ یہاں پورے ملک سے مریض آتے ہیں۔ پنجاب میں ’’PKLI‘‘پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں گردے اور جگر کا علاج دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔

’’SIAG‘‘ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس گیسڑو اینٹرو لوجی میں ایک نئی مشین جو پورے پاکستان میں ایک ہی ہے، کے ذریعے پتے کی پتھری اور لبلبے کامفت علاج کیا جارہا ہے۔ پنجاب میں اس سال پہلی سرکاری ایئر ایمبولنس کا آغاز کردیا گیا ہے۔

کراچی میں شہید بے نظیر انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما جہاں سب سے زیادہ ٹراما اور سرجیکل سہولیات دی جارہی ہیں، یومیہ 500 سے زیادہ مریض آتے ہیں ہر 2 منٹ میں ٹراما کا مریض آرہا ہوتا ہے۔ اب پورے سندھ میں اس کے سیٹلایٹ سینٹرز قائم کئے جارہے ہیں، جو سکھر اور حیدرآباد میں قائم کئے جائیں گے۔

کراچی ہی میں نیشنل اور سپرہائی وے کے لنک روڈ پر 300 بستروں کا ٹراما اور ایمرجنسی کیئر سینٹر کی عمارت تیار ہوگئی ہے جہاں جلد ہی ٹراما اینڈ سرجیکل کے ساتھ میڈیکل کی سہولت بھی میسر ہوگی۔

گمبٹ کے گمس اسپتال میں اس سال ایک ہزار کامیاب لیور ٹرانسپلانٹ مکمل ہوگئے ہیں۔ یہاں چار سو سے زائد مریضوں کے جگر کی پیوند کاری مفت کی گئی ہے۔ ملک کے تمام حصوں سے مریض یہاں آتے ہیں ۔ پچھلے دنوں گمس اسپتال میں 7 سالہ افغان بچی کے جگر کی کامیاب پیوند کاری مفت کی گئی ہے۔

نواب شاہ میں بے نظیر انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ٹرانسپلانٹ مکمل ہونے کے بعد یکم اگست2024 سے فعال کردیا گیا ہے۔ گمس اسپتال میں پہلی بار روبوٹک مشین کے ذریعے خاتون سمیت دو افراد کے گھٹنے تبدیل کرنے کا کامیاب آپریشن مفت کیا گیا۔ جبکہ پرائیویٹ اسپتال میں اس آپریشن پر 15 لاکھ کا خرچ آتا ہے۔

گزرے سال  جناح اسپتال کراچی میں روبوٹک سرجری کے ذریعے 300 کامیاب آپریشن کئے گئے جن میں گائینی، یور ولاجی سمیت گیسٹریکٹوری gestrctomy اور بڑی آنت کے کیسز کی سرجری شامل ہیں۔

خیبر پختون خواہ کے سرکاری اسپتالوں میں 9 چلڈرن ایمر جنسی روم اور 100ٹیلی میڈیسن سیٹلایٹ سینٹرز بنانے کا آغاز ہوا۔

پنجاب میں دیہی سطح پر فیلڈ اسپتال پروجیکٹ کا افتتاح ہوا، جس کے تحت صوبے بھرمیں 32 موبائل اسپتال فعال کردیئے گئے، جن میں اوپی ڈی، حفاظتی ٹیکہ جات ،زچہ بچہ سمیت ایمجرجنسی میں سر جری کی سہولت بھی موجود ہے۔

اس وقت لاہور، پشاور اور کراچی میں بچوں کے سرکاری کارڈ یک اسپتال مفت کام کررہے ہیں نجی اسپتالوں میں 4-5 لاکھ روپے ایسے علاج پر خرچہ آتا ہے۔ حیدرآباد میں سینٹر فارآٹز مری ہیبلیشن سروس یونٹ کا افتتاح ہلال احمر اسپتال میں کردیا گیا ہے۔

زچہ اور بچے کی مالی امداد کیلئے سندھ حکومت نے 40فی صد حاملہ خواتین کو اسپتال میں زنگی کی جانب راغب کرنے اور بچوں کی حفاظت کیلئے ممتا پروگرام ’’15 اضلاع میں شروع کیا، جس کے تحت مجموعی طو رپر 13لاکھ خواتین کو فائدہ ہوگا، جسکا تخمینہ50 ارب روپے ہے۔ ان خواتین کو 33 ماہ تک صحت کی بنیادی سہولیات اور ادویات فراہم کی جائیں گی۔ 

اگر ہم 2025 میں ایک صحت مند پاکستان چاہتے ہیں ،جہاں لوگوں کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں اور وہ دنیا کے سامنے کامیاب قوم بن کر اُبھریں تو ہمیں اس خواب کی تعبیر میں اپنا حصّہ بھی ڈالنا ہوگا۔ آگے آئیں۔ بیماریوں سے احتیاط اور بچاؤ کیلئے آگہی حاصل کریں اور دوسروں تک پہنچائیں۔ صاف اور محفوظ پانی اور ملاوٹ سے پاک متوازن غذا کو خوراک کا حصہ بنائیں۔

صحت سے مزید