• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتابوں کے ذکر پر ایک دل چسپ واقعہ یاد آگیا۔ پہلے وہ سنیے اور پھر اس کے یاد آنے کا سبب بھی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب جب مجلس ِ ترقیِ ادب (لاہور) کے ناظمِ اعلیٰ تھے تو سالانہ تنقیحِ حسابات (یعنی آڈٹ ) کے موقعے پر ایک سرکاری بابو نے اعتراض کردیا کہ یہ ادارہ اب تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکا ہے حالانکہ اس ادارے کو ہر سال سرکار سے اتنی اتنی رقوم دی جاتی ہیں اور اس کے قیام کو چالیس پچاس سال ہوگئے ہیں۔ پھر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تین سال میں توکپڑے کی دکان بھی چلنے لگتی ہے۔ ساتھ ہی ادارے کے بجٹ کے بارے میں بھی کچھ گوہر افشانی فرمائی۔

ظاہر ہے کہ ایک سرکاری بابو کی سوچ اتنی محدود ہی ہوسکتی ہے اور وہ ایک علمی و ادبی ادارے اور کپڑے کی دکان کو ایک ہی طرح یعنی نفع نقصان کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن اس تبصرے نے احمد ندیم قاسمی کو اتنا برافروختہ کیا کہ انھوں نے احتجاجاً استعفا دینے کا ارادہ کرلیا۔ ظاہر ہے کہ اس پر بہت ہنگامہ ہوا اور اخبارات میں کالم بھی لکھے گئے۔ 

اُس وقت کی پنجاب کی صوبائی حکومت (جس کے تحت یہ ادارہ قائم ہے) نے قاسمی صاحب کو ملاقات کی دعوت دی، ان سے معذرت کی اور ادارے کے لیے اضافی رقم کا بھی اعلان کیا۔ اس واقعے نے اس بات کو روزِ روشن کی طرح واضح کردیا کہ سرکاری یا غیر سرکاری علمی اداروں کا مقصد دراصل نفع کمانا نہیں ہوتا اور ان اداروں کو دی جانے والی رقوم کا حساب اس نقطۂ نظر سے نہیں مانگا جاسکتا کہ کتنی کتابیں فروخت ہوئیں اور کتنا کمایا۔ 

بلکہ یہ ادارے حکومت نے قائم اسی لیے کیے ہیں کہ جو علمی و تحقیقی کام عام تجارتی ناشر اس خیال سے نہیں شائع کرتے کہ ان کا فروخت ہونا مشکل ہے اور انھیں چھاپنا گھاٹے کا سودا ہے، ان کی اشاعت اور ترویج ہوسکے۔ بصورت ِ دیگر کتنے ہی علمی و ادبی شاہکا ر اشاعت کا منھ دیکھے بغیر دیمک کی خوارک بن جاتے۔

یہ واقعہ ہمیں یوں یاد آیا کہ اب ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری علمی ادارے بھی کتابیں چھاپنے سے کترا رہے ہیں اور ان میں سے بعض نے کتابوں کی اشاعت کے لیے ادیبوں اور شاعروں سے رقوم کا مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان علمی اداروں کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اگر یہ بھی پیسے لے کر کتابیں چھاپیں تو ان میں اور اردو بازار کے عام تجارتی ناشرین میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور پھر تو واقعی حکومت کے بابوؤں کو ان اداروں کے بجٹ اور امدادی رقوم کے صحیح استعمال پر سوال اٹھانا چاہیے۔

دراصل یہ بات یوں شروع ہوئی کہ دوہزار چوبیس میں شائع ہونے والی اردو کی نثری کتابوں پر نظر ڈالنی شروع کی تو خیال آیا کہ یہ دیکھا جائے کہ پاکستان میں اب کتابوں کی اشاعت اور فروخت کا کیا عالم ہے۔ اس ضمن میں تین طرح کے نقطۂ ہاے نظر پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو ناشران و تاجرانِ کتب کا ہے ، دوسرا اہل اہل قلم کااور تیسراقاری کا۔

کتابیں چھاپ چھاپ کر اور بیچ بیچ کر بعض پاکستانی ناشرین ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی تو ہوہی چکے ہیں لیکن وہ ایک ہی رونا گذشتہ پچھتر سال سے رو رہے ہیں کہ اس ملک میں کوئی کتابیں نہیں پڑھتا، کتابیں نہیں بِکتیں۔ پچھلے بیس پچیس برسوں میں ان کا یہ کہنا شدت اختیار کرگیا ہے کہ اب کمپیوٹر اور دستی فون کے دور میں کتابیں کون پڑھتا ہے؟ 

مزے کی بات یہ ہے کہ یہی ناشرین اپنا کاروبار بند بھی نہیں کرتے اور کتابیں چھاپتے رہتے ہیں۔ بس قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ بلکہ برسوں پہلے چَھپی ہوئی اور گودام میں چُھپی ہوئی کتابوں کی قیمت پر بھی کاغذ کی چیپی لگا کر پڑھنے والوں کی جیب پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔

افسوس کہ بعض سرکاری علمی ادارے یا دیگر علمی وادبی ادارے بھی(جنھیں سرکار سے سالانہ امداد ملتی ہے کہ وہ کتابوں اور علم و ادب کو فروغ دیں) پرانی کتابوں کی قیمت بڑھا دیتے ہیں حالانکہ ان کا نفع نقصان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔

اب یہ رجحان بہت عام ہوگیا ہے اور اب بہت کم ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کی کتاب ناشر اپنے پلّے سے شائع کرتے ہوں بلکہ اب اس ’’کار ِ خیر‘‘ میں بعض بہت قدیم اور معروف ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں۔

دوسری طرف اہلِ قلم کا کہنا ہے کہ ہم کتاب لکھیں بھی اور اس کی اشاعت کے لیے پیسے بھی خرچ کریں جبکہ ناشرین اور کتب فروش ہماری ہی کتابوں سے کماتے ہیں بلکہ اس پیشے سے وابستہ سبھی افراد کو کچھ نہ کچھ یافت ہوتی ہے۔

البتہ علم و ادب کے فروغ کے لیے قائم کیے گئے بعض سرکاری اداروں کے کار پر دازان بتاتے ہیں کہ ان کا بجٹ اب اتنا کم کردیا گیا ہے کہ اب ان کے لیے صرف محدود تعداد میں کتابیں چھاپنا ہی ممکن ہے اور نوکر شاہی کا رویہ ان اداروں کے ساتھ ایسا ہی ہے جسے ہم محاورۃً سوتیلی ماں کا سا سلوک کہتے ہیں۔ ادھر قارئین کو دیکھیں تو ان کا کہنا ہے کہ ہم بجلی کا بل ادا کریں ، آٹا لیں یا انتہائی مہنگی کتاب خریدیں۔

خلاصہ اس ساری گفتگو کا یہ ہے کہ اب واقعی کتابوں کی اشاعت اور فروخت میں کمی آرہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی بھی ہے۔ دوسری وجہ برخط یعنی آن لائن کتابوں اور رسالوں کی دست یابی ہے۔ چند سال بلکہ چند ماہ قبل شائع ہونے والی کتب بھی بلا اجازت برخط دست یاب ہیں اور بیش تر صورتوں میں مفت۔ 

ان کتابوں کی بالعموم ایک ایسی شکل مہیا کردی جاتی ہے جسے پی ڈی ایف کہتے ہیں اور جو بآسانی مطالعے کے لیے دستی فون (یعنی موبائل فون)پر بھی دست یاب ہوتی ہے۔ پہلے تو لکھنے والے روتے تھے کہ ناشر ہمارے حقوق پر ڈاکا ڈال رہے ہیں لیکن اب ناشرین بھی رور رہے ہیں کہ کمپیوٹر والوں نے ہمیں لوٹ لیا۔ بقول ناشرین کے اب کتابیں چھاپ بھی دیں تو لوگ مفت میں پڑھ لیتے ہیں، خریدتا کون ہے۔

لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ادب اور علم کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور ان کا یہ عزم ہے کہ، بقولِ فیض:

ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے ر قم کرتے رہیں گے

ایسے ہی دیوانوں نے کچھ کتابیں سالِ گذشتہ میں لکھیں اور وہ شائع بھی ہوئیں۔ ان میں سے کچھ اہم نثری کتابوں کا ذکر پیش ہے۔ عرض ہے کہ ہر سال بہت بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہوتی ہیں اور ان سب کے ذکر کی اگر یہاں گنجائش ہو بھی تو کون ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے ایک سال میں شائع ہونے والی ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ 

بلکہ پڑھنا تو دور کی بات ہے بہت سی کتابوں کی اشاعت کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔ اس لیے اگر کسی کتاب کا یہاں ذکر نہیں ملتا تو اسے مخاصمت کے بجاے راقم کی کم علمی و کوتاہ دستی (بلکہ کوتاہ بینی) اور اخبار کی تنگ دامانی پر محمول کیجیے گا۔

اب آئیے سالِ گذشتہ میں پاکستان سے شائع ہونے والی اردو کی ادبی نثری کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

٭…فکشن

عاصم بٹ کا نیا ناول’ پانی پہ لکھی کہانی ‘شائع ہوا۔ یہ ان کا چوتھا ناول ہے۔ افسانوں کے تین مجموعے اور تراجم ان کے علاوہ ہیں۔ ان کے ہاں سیاسی اور سماجی حقائق کا احساس زیریں سطح پر کروٹیں لیتا رہتا ہے اور بظاہر سادہ سی کہانی میں انسانی المیوں اور زندگی کی تلخیوں پر پیچیدہ تجزیے وہ چپکے چپکے ہی کردیتے ہیں۔

چند شعرا کے علاوہ جن نثر نگاروں کی کلیات اس سال شائع کی گئی ہے ان میں افسانہ نگاراحمد دائود (مرحوم) بھی شامل ہیں۔ ’مجموعۂ احمد دائود‘ کے نام سے مطبوعہ کتاب میں ان کے افسانوں کے تین مجموعوں یعنی مفتوح ہوائیں، دشمن دار آدمی ، خواب فراموش اور ناولٹ رہائی کو شامل کیا گیا ہے۔ ’مجموعہ مرزا حامد بیگ‘ میں ان کے مجموعے گم شدہ کلمات، تار پر چلنے والی، گناہ کی مزدوری اور جانکی بائی کی عرضی شامل ہیں۔

٭…تحقیق و تنقید

اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنے سلسلے پاکستانی ادب کے معمار : شخصیت اور فن کو نئے انداز سے پیش کرنا شروع کیا ہے اور اس سلسلے کی تازہ ترین کتاب ’ یاسمین حمید: شخصیت اور فن ‘ شائع ہوئی ہے جو ڈاکٹر بی بی امینہ کی کاوش ہے۔

لاہور یونیورسٹی اوف مینجمنٹ سائنسز( لمز) نے اپنے اشاعتی منصوبوں میں توسیع کی ہے اور اب وہاں سے ان کے تحقیقی مجلے’ بنیاد‘کے علاوہ علمی موضوعات پر کتابیں بھی شائع ہوا کریں گی۔ اس سلسلے میں پہلی کتاب’ علمی نثر: اصول و رسمیات ‘شائع ہوگئی ہے جس میں تنقیدی، تحقیقی اور علمی موضوعات پر لکھنے کے اصول اور مبادی پر مختلف اہل علم و تحقیق کے مقالے شامل ہیں۔ 

لمز نے دوسری کتاب ـ’لاہورکی کہانی شاعری کی زبانی ‘بھی شائع کی ہے جس میں اردو، فارسی اور پنجابی شاعری میں لاہورکے ذکر کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اس میں مختلف محققین کے مقالے شامل ہیں۔

تہمینہ عباس کا تحقیقی مقالہ’ اردو ادب میں روحانیت اور مادیت کی کشمکش‘ کتابی صورت میں انجمن ترقی ِ اردو(کراچی) نے شائع کیا۔محمد نصراللہ کے تحقیقی مقالے ’اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری ‘ کو سنگ ِ میل (لاہور) نے کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ نسبتہ ً ایک نیا موضوع ہے اور مصنف نے نفسیاتی حقیقت نگاری کی مثالیں اردو افسانے سے پیش کی ہیں۔

قرۃ العین حیدر پر ہندوستان میں جن لوگوں نے خاصا کام کیا ہے ان میں جمیل اختر بھی شامل ہیں۔ ان کی ہندوستان سے مطبوعہ کتاب ’قرۃ العین حیدر: تفہیم کے متنوع زاویے ‘اب لاہور سے بھی شائع ہوگئی ہے۔ اس میں قرۃ العین حیدر کی تخلیقی زندگی کے مختلف پہلو پیش کیے گئے ہیں۔

اختر شیرانی شاعر تو تھے ہی نثر نگار بھی تھے۔ محقق اور استاذ الاساتذہ ڈاکٹر یونس حسنی صاحب کے خصوصی مطالعے کا موضوع اختر شیرانی ہے۔ متعدد موضوعات پر اختر شیرانی کے مضامین رسائل میں بکھرے ہوئے تھے جن کوحسنی صاحب نے تلاش و تحقیق کے بعد مرتب کردیا اور کراچی سے رنگ ِ ادب پبلی کیشنز نے انھیں’’ نثرِ اختر‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔ 

باقر شمس اردو کے ایک ایسے محقق اور ناقد تھے جن کا خاص موضوع لکھنؤ ، اس کی تاریخ و تہذیب اور لکھنؤ کی زبان و ادب تھا۔ ان کی چار کتابوں کودو نئی اور خوب صورت کتابوں کی شکل میں بک کارنر (جہلم ) نے دوبارہ شائع کردیا ہے جن کے نام ہیں : داستانِ لکھنو ٔ، دبستانِ لکھنؤ ۔

ظفر علی خان پر لکھے گئے مضامین و مقالات کو زاہد منیر عامر نے ’صبح کا ستارہ ظفر علی خان: سوانح ، شخصیت اور فن‘ کے نام سے مرتب کردیا۔ پنجاب یونیورسٹی کی شائع کردہ اس ضخیم کتاب میں درحقیقت چار کتابیں شامل ہیں اور نامور لکھنے والوں کے اسّی (۸۰)کے قریب مضامین و مقالات شامل ہیں۔ 

انگریزی کے معروف شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی نظم دا ویسٹ لینڈ (The Wasteland) پر صفدر رشید نے ’کہانی ایک نظم کی ‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جسے نیشنل بک فاونڈیشن (سلام آباد) نے شائع کیا۔ اسلم انصاری ہمارے بزرگ شاعر اور محقق تھے۔ ان کے مقالات کا مجموعہ ’تاریخ و تہذیب ‘ان کی وفات سے چند روز قبل لاہور سے مجلسِ ترقی ِ ادب نے شائع کردیاتھا۔

٭…خود نوشت ؍یادداشتیں؍ خاکے

قمر رضا شہزاد کی خود نوشت ’اپنے نواح میں‘ سنگ میل نے شائع کی۔ شورش کاشمیری کی کتاب’ موت سے واپسی قید کے دنوں کی روداد ہے۔ اس کا نیا ایڈیشن قلم فاونڈیشن (لاہور)نے شائع کیا۔ 

محمد حمزہ فاروقی نے چند نامور شخصیات کے خاکے ’آتش رفتہ کا سراغ‘ کے عنوان سے دل چسپ انداز میں پیش کیے۔ ناشر ہیں فضلی سنز، کراچی۔ اس میں ان شخصیات سے ملاقاتوں کا احوال اور ان کے نظریات بھی پیش کیے گئے ہیں۔

٭…زبان اور علم ِ زبان

اردو زبان کا جو حال وطن ِعزیز میں اردو کے صحافیوں نے کردیا ہے اصولاً اس کا ذکر مرثیے کے انداز میں ہونا چاہیے لیکن احمد حاطب صدیقی ایسے ستم ظریف ہیں کہ ذرائع ابلاغ اور عام زندگی میں اردو زبان کے غلط استعمال پر اس طرح ہنس ہنس کر چوٹ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بر محل اشعار کا ستعمال اس طرح کرتے ہیں کہ دل سے واہ بھی نکلتی ہے اور آہ بھی۔ زبان کے درست استعمال پر ان کے شگفتہ کالموں کا مجموعہ ’پھولوں کی زباں‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔

’اردو لسانیات پرایک نظر‘ کے عنوان سے نعمت اللہ صاحب کی کتاب شائع ہوئی۔ یہ ایک تحقیقی مقالہ تھا جو کوئی تیس برس قبل لکھا گیا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کچھ تازہ تر تحقیقی کاموں کی روشنی میں اس میں اضافے کردیے جاتے ۔ ’اردو املا اور حروف ِ تہجی‘ اس عاجز طالب علم کی کتاب ہے جو کراچی سے سٹی بک پریس نے شائع کی۔ 

اسی ادارے نے راقم کی مرتبہ ایک کتاب بھی شائع کی جس کا نام ہے’ فرہنگ ِ تلفظ : ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘۔ یہ رضوان علی ندوی کی ان تنقیدی تحریروں پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے شان الحق حقی کی مرتب کردہ لغت فرہنگ ِ تلفظ پر تنقید کی تھی۔

٭…اقبالیات

علامہ اقبال کی معروف فارسی مثنوی’ اسرار ِ خودی‘ پر خواجہ حسن نظامی اور بعض دیگر اہل قلم نے اعتراض کیا تھا۔ اقبال نے اس کا جواب بھی دیا ۔اقبال کی ایک اور مثنوی’ رموزِ بے خودی‘ ہے۔ اس پر بھی اظہار ِ خیال کیا گیا۔ خاصے عرصے تک یہ اعتراضات اور وضاحتیں علمی حلقوں میں موضوع بحث رہیں جو مختلف علمی و ادبی مآخِذ میں شائع ہوئیں۔ 

خالد ندیم نے بہت جستجو سے ان کو تلاش کرکے ان پر محنت سے حواشی لکھے اور انھیں ’مطالعات ِ اسرا و رموز‘ کے نام سے پیش کردیا۔ اسے لاہور سے نشریات نے شائع کیا۔ یہ ایک اہم علمی کام ہے۔

زاہد منیر عامر نے اکبر ا لہٰ آبادی کے وہ خطوط مرتب کرکے شائع کردیے جو اکبرنے علامہ اقبال کو لکھے تھے ۔کتاب کا نام ہے :’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد ۳۳ غیر مطبوعہ خطوط کی دریافت‘ ۔ اس میں اقبال کے نام اکبر وہ خطوط ہیں جن کے وجود کا تو علم تھا لیکن یہ تقریبا ً سو سال سے پردۂ اِخفا میں تھے۔البتہ اس کتاب کی اشاعت پر ایک تنازع کھڑا ہوگیا۔

دراصل چوہدری محمد حسین کو علامہ اقبال نے اپنے بچوں کا سرپرست مقرر کیا تھا اور یہ خطوط ان کے خاندان میں محفوظ چلے آرہے تھے۔ جب یہ خط اس کتاب میں زاہد منیر عامر نے شائع کیے توچوہدری محمد حسین کے پوتے ثاقف نفیس نے اس پر اعتراض کیا۔

٭…غالبیات

اقبالیات کی طرح غالبیات بھی ایک سدا بہار موضوع ہے جس پر ہر سال کئی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اِمسال ادارۂ یادگار ِ غالب و غالب لائبریری کے زیر اہتمام غالب پر دو کتابیں شائع کی گئیں۔ ان میں سے ایک ’مہملات ِ غالب ‘ان تحریروں پر مشتمل ہے جو غالب کے خلاف اور ان کے دفاع میں اس موضوع پر لکھی گئیں کہ غالب کے بہت سے شعر مہمل اور بے معنی ہیں یا نہیں۔ دوسری کتاب ’احوالِ غالب‘ میں نامور نقادوں کے غالب پر مضامین شامل ہیں۔

٭…تراجم

خاصی تعداد میں تراجم بھی اس سال شائع ہوئے لیکن صرف چند ہی کا ذکر ممکن ہے۔’دھرتی روشن ہے‘ کے عنوان سے سندھی افسانوں کے اردو تراجم شائع ہوئے اور اس کے مرتب ہیں محمد علی منظر۔’ منتخب جدید سندھی افسانے ‘ کے عنوان سے مجموعہ شائع ہوا۔ جہانگیر عباسی مترجم ہیں۔

٭…کتابیات

محققین کو اپنے تحقیقی کاموں کے لیے بہت کتابیں کھنگالنا پڑتی ہیں اور کتب خانوں کی دھول پھانکنی پڑتی ہے ۔ لیکن اگر کسی خاص موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی ایک فہرست مع طباعتی تفصیلات شائع کردی جائے تو محققین، اساتذہ اور طالب علموں کو بڑی سہولت ہوجاتی ہے۔ اسے اردو میں کتابیات اور انگریزی میں ببلیوگرافی کہتے ہیں۔ 

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ِ گرامی پر اردو میں دس ہزار سے زائد کتابیں لکھی جاچکی ہیں اوران کتابوں کی فہرست ’جامع اردو کتابیات ِ سیرت‘ کے نام سے سید عزیز الرحمٰن اور ان کے دو رفقا نے مرتب کرکے ایسا ایمان افروز کام کیا ہے کہ اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ یہ دو جلدوں میں ہے اور اسے ایوانِ سیرت (کراچی) نے شائع کیا ہے۔

٭…ادبی رسائل

ادب کی کساد بازاری کے اس دور میں بھی کچھ دیوانے ادبی رسائل شائع کررہے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر و بیشتر اعزازی طور پر یعنی مفت ہی تقسیم ہوتے ہیں۔ ادبی جرائد جو دوہزار چوبیس میں شائع ہوئے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: الحمرا، بنیاد، قومی زبان، اخبار اردو، مکالمہ، نعت رنگ، مخزن ۔قومی زبان نے ضخیم طنزومزاح نمبر شائع کیا۔

سرکاری ادارے ادارۂ فروغ ِ قومی زبان کے زیر اہتمام نکلنے ولا اخبار اردو اب خاصے عرصے سے صرف برخط یعنی آن لائن شائع ہوتا ہے، طباعت میں کچھ مسائل کا سامنا ہے۔

باعث ِ مسرت ہے کہ کچھ ادبی رسالوں نے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے پر خاص نمبر شائع کیے اور فرض ِ کفایہ ادا کیا، ان میں ادبیات (اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد)، الایام(شعبۂ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی) اور مفاہیم (کراچی) شامل ہیں۔