• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہونٹوں سے حُرف نکل کر، آوازوں میں ڈھل جانے تک

2024 میں ایک طرف تو یہ سننے میں آیا کہ عوام کا کتاب سے رشتہ ختم ہو چکا ہے اور نئی نسل کے ہاتھ میں موبائل فون آنے سے اور انٹرنیٹ کی دل چسپی نے نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے جس کی وجہ سے کتاب کلچر ختم ہورہا ہے۔ 

دوسری جانب کتابوں کی ہوش رُبا اشاعت اور خرید و فروخت نے مذکورہ دعوے کو جھٹلا دیا ہے۔ گذشتہ سال ایکسپو سینٹر، کراچی میں منعقد ہونے والے بک فیئر میں کروڑوں روپے کے اسٹالوں کی بکنگ، لاکھوں مشتاقانِ کتب کا ایکسپو سینٹر آنا، کروڑوں روپے کی کتابوں کی خریداری بھی مذکورہ شکایات کی نفی کرتی ہیں۔ 

اس کے علاوہ ہر سال آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں اُردو کانفرنس میں دنیا بھر سے اہل قلم کاشریک ہوکر مختلف اصنافِ ادب کے مختلف شعبوں میں مقالات پیش کرنا اور کتابوں پر گفتگو کرنا، کتاب سے محبت کا ثبوت ہے اور یہ ثبوت امسال پاکستان کے مختلف شہروں میں واقع بڑے بڑے ادبی مراکز کی تقریبات سے بھی ملتا رہا ہے۔ 

اِن کے علاوہ پاکستان کے معروف شہروں میں ادبی تقریبات، لٹریچر فیسٹیول، حمدیہ و نعتیہ مشاعرے، قومی و بین الاقوامی سیرت اور دیگر کانفرنسیں، قد آور ادبی شخصیات کے جشن اوران کے ساتھ منائی گئیں شامیں، شعری کتب کی تقریبات پذیرائیاں، ادبی میلے، ساکنان شہر قائد کے مشاعرے، مختلف ادبی حلقوں اور فاؤنڈیشنوں کی ادبی نشستوں کا انعقاد، ادب کی ترویج اور فروغ کے ثبوت پیش کرتے ہیں جن میں اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں زبان وادب اور کتاب کی اہمیت و افادیت سے متعلق خصوصی لیکچروں کا سلسلہ بھی حوصلہ افزائی میں شامل ہے۔

پاکستان کے ادبی اداروں اُردو لغت بورڈ، اُردو سائنس بورڈ، ادارہ فروغ ادب، انجمن ترقی اُردو، مجلس ترقی ادب، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی ادبیات، بزم اقبال، اقبال اکیڈمی اور ایوان اقبال کی فروغ اُردو ادب پر کارکردگی کا سامنے آنا بھی کسی دلیل سے کم نہیں ہے اور پھر قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مختلف اداروں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس اور یو بی ایل لٹریچر فیسٹیول میں ادب کی مختلف اصناف پر شائع ہونے والی کتب پر لاکھوں روپے کے انعامات سے شعراوادبا کی حوصلہ افزائی کرنا (جیسے ڈاکٹر شیما ربانی نے اپنے والد کی یاد میں جسٹس ایس اے ربانی ایوارڈ کا اجرا کیا)،  کتاب کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

اگر مختلف اصناف نظم و نثر کی مطبوعہ کتب کی تفصیل درج کی جائے تو دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں، مگر ہم یہاں صرف 2024 میں شائع ہونے والی اُردو شاعری کی کتابوں کا ذکر کر رہے ہیں جو نہ صرف پوری آن وبان اور خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع ہوئیں بلکہ انہوں نے اپنی اہمیت و افادیت کا سکہ بھی عوام و خواص کے دلوں پر بٹھایا اور ان سے اُردو ادب کا دامن نہ صرف مالا مال ہوا بلکہ وہ وقیع سرمایہ ادب ٹھہریں اور تاریخ اُردو ادب کا حصہ بھی بنیں۔ کتابوں کے ان حقائق کے بعد یہ کہنا کہ کتابوں کا دور ختم ہو گیا ہے یا کتاب کلچر ختم ہو رہا ہے یا کتابوں کی خرید و فروخت صفر ہو گئی ہے تعجب خیز بات ہے۔

یکم جنوری 2024 ء کو شائع ہونے والی شاعری کی پہلی کتاب لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر شاعر جناب غلام حسین ساجد کا دوسرا شعری کلیات’’ مزا میر‘‘ ہے جس میں اُن کے چھ شعری مجموعے یک جا شائع ہوئے ہیں۔ مزا میر جلد اول میں بھی ان کے 6شعری مجموعے شامل ہیں۔ 

جناب غلام حسین ساجد کے پنجابی زبان میں شاعری کے مجموعے اور کلیات ان کے علاوہ ہیں، مزامیر جلد سوم کے لیے بھی ان کے شعری مجموعے ’’تجاوز‘‘، ’’باغ نشاط کی طرف‘‘ اور دیگر تیاری کے مراحل میں ہیں۔ پاکستان کے معروف شاعر ونقاد جناب اکرم کنجاہی کی 32ویں کتاب ’’عکس رخ باطن‘‘ کے نام سے شائع ہوئی جو اُن کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔ 

اس مجموعے کے چند ماہ بعد اکرم کنجاہی کی شریک حیات محترمہ سفینہ بیگم کا انتقال پُر ملال ہوا تو انہوں نے اپنی بیگم کے ہجروفراق میں حزنیہ شاعری کی، جو ’’الوداع‘‘کے نام سے مجموعہ کلام میں شایع ہوئی۔ اس مجموعے میں شامل کلام کو پڑھنے کے بعد قارئین کی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ 

کراچی کے معروف شاعر و نقاد اور ماہر تعلیم جناب پروفیسر ہارون الرشید کی وفات کے بعد اُن کے فرزند ارجمند جناب زاہد رشید نے اپنے والد کی حمدیہ شاعری کو یک جا کر کے ’’لا شریک لہ‘‘ کے نام سے مجموعہ حمد شائع کیا، جس میں خدا کی وحدانیت کا پرچار کیا گیا ہے۔’’ ہزار حمد‘‘ کے عنوان سے راقم الحروف کا مرتب و مدون کردہ حمدیہ انتخاب کراچی سے شائع ہوا جس میں1000 شعرا کی 1000 حمدوں کو سپردِ قلم کیا گیاہے، تمام حمدیں غزل کی ہیٔت میں لکھی گئی ہیں۔

اس منفرد انتخابِ حمد کودنیائے اُردو ادب میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہزار حمد کی دوسری جلد بھی ترتیب پا رہی ہے جس میں مزید1000 شعراکی 1000 حمدیں شامل ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی راقم الحروف کی تخلیق کردہ سات سات اصناف سخن پر مشتمل 700 حمدیہ اور 700 نعتیہ نظموں پر مشتمل دو کتابیں ’’حمد کے سات رنگ‘‘ اور ’’نعت کے سات رنگ‘‘بھی کراچی سے زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آئیں جو حمدیہ و نعتیہ ادب میں نہ صرف ایک وقیع اضافہ ہیں، بلکہ ان سے حمدیہ و نعتیہ ادب کا دامن بھی مالا مال ہواہے۔ محمد فیصل عشرت کی مرتب کردہ کتاب’’ بڑوں کی نظمیں بچوں کے لیے‘‘ منظر عام پر آئی جس میں 50 سے زائد شعرائے اُردو کی نظمیں شامل ہیں۔

فیصل عشرت نے اس کتاب کا انتساب حکیم محمد سعید شہید کے نام کیاہے۔ جناب مصطفی ارباب کی نظموں کا مجموعہ ’’پابریدہ نظمیں‘‘ شائع ہوا جس پر اُردو اور سندھی زبان کے مشاہیر نے متعدد اخبارات و رسائل و جرائد اور فیس بک پر بہت عمدہ تبصرے کیے اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ مصطفی ارباب نے اس کتاب کی تمام نظمیں اپنی شریک حیات نسیم کے لیے تخلیق کیں اور کتابی شکل میں شائع کرواکر انھیں کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔

راول پنڈی کے معروف شاعر و ادیب اور نقاد جناب نسیم سحر کے دو شعری مجموعے ’’اے ارض وطن‘‘ اور ’’جادو بھری شام‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ’’اے ارض وطن‘‘ ملی نظموں اور’’ جادو بھری شام‘‘ غزلوں پر مشتمل ہے۔ نسیم سحر کا شمار کثیر التصانیف شخصیات میں ہوتا ہے، نسیم سحرکو ان کی ادبی خدمات پر متعدد نقدانعامات و اکرامات اور اعزازی شیلڈز مل چکی ہیں۔ 

اسلام آباد کے معروف شاعر و ادیب جناب اختر عثمان کے دو شعری مجموعے ’’شفق آباد‘‘ اور ’’ابد آثار‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔’’ شفق آباد‘‘ مرثیوں اور ’’ابد آثار‘‘ رباعیات کا مجموعہ ہے۔ اختر عثمان اُردو ادب کا ایک اہم نام ہیں، جن کی اب تک 09 تخلیقات نظم و نثر دامن اُردو ادب میں سماچکی ہیں۔ 

مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے شاعر جناب ظریف احسن کاشعری مجموعہ ’’اے لب داستان سرا‘‘ شائع ہوا جس کی اشاعت پران کے آبائی شہر مظفر گڑھ، پنجاب میں جشن ظریف احسن بھی منایا گیا اور ان کے شعری مجموعے کو بہت پسند کیا گیا۔ عن قریب جناب ظریف احسن کا ایک اور شعری مجموعہ ’’اَنائے عشق‘‘بھی طباعت کے مراحل سے گزر کر منظر عام پر آنے والا ہے جس میں ان کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ 

لاہور سے محترمہ پروین سجل کی غزلوں کا مجموعہ ’’صاحب ‘‘شائع ہوا۔ پروین سجل کی کوئی نہ کوئی کتاب ہر سہ ماہی زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آتی اور شائقین شعروسخن، ناقدین فن اور مشاہیر اُردو ادب کی تو جہ کا مرکز بنتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر عمران ظفر کی غزلیات کا مجموعہ’’ دو حرف تسلی کے‘‘ خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع ہوا۔

یہ سنجیدہ غزلوں کا مجموعہ ہے جب کہ ڈاکٹر عمران ظفر کا نام مزاحیہ شاعری میں کافی مشہورو معروف ہے۔اس سے قبل بھی ان کی سنجیدہ شاعری کا مجموعہ ’’دشت محبت‘‘کے نام سے منظر عام پر آکر خاص پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ کراچی سیخالد احمد سید کا اولین شعری مجموعہ’’ آنکھ نم ہے‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا،جس نے انھیں بہ حیثیت شاعر پہچان عطا کی۔ جناب خالد احمد سید ’’پاکستان کے 50معروف نغمہ نگار‘‘کے نام سے بھی کتاب لکھ رہے ہیں جو اسی سال مکمل ہو کر نظر نواز ہو سکے گی۔ 

کراچی کے سینئر شاعر جناب اختر عبدالرزاق کا پہلا شعری مجموعہ ’’میں شمار ہونے سے رہ گیا‘‘ منظر عام پر آیا، جس میں ان کی عمر بھر کی ریاضت و مشق سخن نظر آرہی ہے۔ ان کا لہجہ شعرائے کراچی میں اس لیے منفرد ہے کہ وہ اپنی شعری میں کیفیات کو منظوم کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ 

افسانہ و ناول نگار اورمعروف شاعرہ مس حمیدہ کشش کی مرتب کردہ کتاب’’ کراچی کے پانچ اہم نظم نگار‘‘ عمدہ طباعت سے مزین ہوکر سامنے آئی، جس میں کراچی کے پانچ اہم اور نمائندہ نظم نگاروں(سہیل احمد، سعید الظفر صدیقی، فاضل جمیلی، سلمان ثروت اور فہیم شناس کاظمی) کی بیس بیس نظمیں، ان کی شاعری پر ایک ایک تنقیدی مضمون اور رنگین تصویریں بھی شائع کی گئی ہیں۔

اس سے قبل مس حمیدہ کشش کی اسی قبیل کی ایک اور کتاب ’’کراچی کے پانچ عبقری شاعر‘‘جس میں پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر ڈاکٹر پیرزاد ہ قاسم رضا صدیقی،انور شعور،صابر ظفر اور پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کی بیس بیس غزلیں، ان کی شاعری پر لکھا گیا ایک ایک تنقیدی مضمون اور سب کی رنگین تصویریں شامل تھیں، ان دونوں کتابوں کو کراچی کے حلقوں میں بے حد پسند کیاگیا جس کی بنیاد پر اب ان کی ایک اور کتاب’’کراچی کے پانچ اہم غزل گو‘‘تیار ہو رہی ہے جس میں جناب رفیع الدین راز، ڈاکٹر فاطمہ حسن، محترمہ ریحانہ روحی، اکرم کنجاہی اور راقم الحروف (شاعرعلی شاعر) کی بیس بیس غزلیں، ان کی غزل گوئی پر ایک ایک تنقیدی مضمون اور سب کی رنگین تصویریں شائع کی جارہی ہیں۔ 

لاہور سے معروف حمد و نعت گوشاعرجناب عبدالمجید چٹھہ کے تین حمدیہ و نعتیہ مجموعوں نے بالترتیب ’’پھولوں کا بانکپن‘‘، ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ اور’’ سید الکونین‘‘ نے نعتیہ ادب میں اضافہ کیااور تاریخ نعتیہ ادب کا حصہ بھی بنے۔

جناب عبدالمجید چٹھہ کے حمدیہ و نعتیہ مجموعوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہو چکی ہے، جن میں حمدیہ و نعتیہ مجموعے اور سیرت کی تخلیقات بھی شامل ہیں، ان تمام تصانیف و تخلیقات کی بنیاد پر جناب عبدالمجید چٹھہ کو درجنوں اعزازات، نقد انعامات، اور اعزازی شیلڈز بھی مل چکی ہیں۔ 

دیارِ غیر میں مقیم محترمہ فرح کامران کا تازہ شعری مجموعہ ’’سرخ شام کا دیا‘‘ کراچی سے شائع ہوا،جس کی طباعت انتہائی خوب صورت اور دیدہ زیب اور سرورق بہت ہی دل کش پرنٹ ہواہے۔ معروف شاعر، مترجم اور ماہر تعلیم جناب انعام ندیم کے پہلے شعری مجموعے ’’درِ خواب‘‘ کا نیا ایڈیشن ترمیم و اضافے کے بعد کراچی سے شایع کیا گیا، جسے ہر دیکھنے والی آنکھ نے پسند کیا اور ہر قاری نے سراہا۔ عمدہ اورامپورٹڈ کاغذ پر طباعت اس کی اضافہ خوبی تصور کی جا رہی ہے۔ 

کثیر التصانیف شاعر و ادیب اور نقادِنعت ڈاکٹر عزیز احسن کی اُردو میں تخلیق کی گئیں تقدیسی نظموں کا سرائیکی زبان میں ترجمہ’’طلوع سحر‘‘ کے نام سے شائع ہوا، یہ ترجمہ فرہاد زیدی نے کیا ہے۔ ڈاکٹر عزیز احسن کا تقدیسی ادب میں کام ناقابل تسخیر ہے،ان کی تنقید نعت پر متعدد کتب نہ صرف شائع ہو چکی ہیں بلکہ قارئین شعروسخن، ناقدین فن شعراور مشاہیر اُردو ادب سے داد و تحسین بھی وصول کر چکی ہیں۔ گجرانوالہ کے نمائندہ شاعر محترم جان کاشمیری کے دو شعری مجموعے’’ کاغذ، قلم، دوات‘‘ اور ’’گردِ آفتاب‘‘ منظر عام پر آئے۔ ’’گردِ آفتاب‘‘ نظم اور’’ کاغذ، قلم، دوات‘‘ مطلعوں پر مشتمل ہے۔

مطالع کہنے میں جان کاشمیری کا کارِ ادب قابل ذکر ہے، کیوں کہ وہ اب تک نہ صرف کئی ہزار مطالع تخلیق کر چکے ہیں بلکہ انھیں کتابی شکل میں شائع بھی کرواکر قارئین و ناقدین اور مشاہیر کے سامنے پیش بھی کر چکے ہیں۔ گجرات سے معروف شاعر و ماہر تعلیم جناب کلیم احسان بٹ کی غزلیات پر مشتمل مجموعہ ’’خدوخال خاک ہوئے‘‘ نہایت عمدہ طباعت لیے منظر عام پر آیا۔ 

ملتان کے معروف شاعر و ادیب جناب رضی الدین رضی کے مجموعہ نظم ’’ستارے مل نہیں سکتے‘‘ نے شائع ہو کر دادو تحسین وصول کی۔ ڈاکٹر محمد نجیب اللہ خان کا شعری مجموعہ’’ تحفہ بہار‘‘ اشاعت پذیر ہوا۔ ملتان کے معروف شاعر احمد مسعود قریشی کا مجموعہ نعت ’’ہمارے محمدﷺ‘‘ منظر عام پر آیا، ان کے نعتیہ کلام میں والہانہ عقیدت اور عشق رسول ﷺ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے اور انھوں نے سیرت رسول ﷺ کو اپنے نعتیہ کلام کا مرکز و محور رکھا ہے جو اصل نعت ہے۔

غلام محمد قاصر کے فرزند ارجمند جناب عماد قاصر کا منفرد اشعار کا انتخاب’’ ادبی ڈائری‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں لیپ کے سال کے مطابق 366 صفحات پر 366 شعرا کے 366 منتخب، مشہور و معروف اور ضرب الامثال اشعار دیے گئے ہیں۔ 

یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد و یکتا ہے۔ معروف شاعر و ادیب و نقاد جناب سید فراست رضوی کے کراچی سے دو شعری مجموعے’’ گل مہر کے سائے‘‘ اور’’ چشم تر‘‘عمدہ طباعت سے آراستہ ہوئے۔ ’’گل مہر کے سائے‘‘ غیر منقوط رباعیات کا منفرد مجموعہ جب کہ ’’چشم تر‘‘ مرثیوں کا مجموعہ ہے۔

عن قریب شاعر موصوف کی مزید کتابیں تیاری کے مراحل میں ہیں اور جلد شائع ہونے والی ہیں۔ پاکستان کے نمائندہ مزاح گو شاعر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا کلیات، ’’کلیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘‘ جہازی سائز اور عمدہ کاغذ پر زیور ِطباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آیا جس میں اُن کی مزاحیہ شاعری کے 08 مطبوعہ شعری مجموعے اور ایک غیر مطبوعہ شعری مجموعہ یک جا شائع ہوئے ہیں۔ مزاحیہ شاعری کے09 شعری مجموعوں پر مشتمل یہ ایک یادرکھی جانے والی کتاب ہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید فی زمانہ مزاحیہ شعری ادب کا بڑا اور اہم نام ہے،جن کی دیگر ادبی خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جاتارہے گا۔

سبی کے ریاض ندیم نیازی کی نظموں کا مجموعہ’’ وفا کے موتی‘‘لاہورسے نہایت عمدہ کاغذ اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع ہوا ، جو دیکھنے میں آنکھوں کو بہت ہی بھلا محسوس ہو رہا ہے۔بھکر کے محمد اقبال بالم کا شعری مجموعہ’’ ہیں آنکھیں نم اُ سے کہنا‘‘ اور مقبول ذکی مقبول کا اُردو، پنجابی اور سرائیکی شعری مجموعہ ’’اندازِ بیاں دیکھ‘‘ اور ’’یہ میرا بھکر‘‘ فردیات پر مشتمل طباعت سے آراستہ ہوا۔ 

کثیر التصانیف شاعر صابر ظفر کے کراچی سے دو شعری مجموعے’’ ماضی میں ٹھہر کے دیکھتا ہوں‘‘ اور’’ میں ایک سوال کا خلا ہوں‘‘ خوب صورت پیکر طباعت سے مزین ہوئے۔ مجموعی طور پر یہ دونوں مجموعے صابر ظفر کے 52اور53ویں مجموعہ کلام ہیں۔ 

صابر ظفر کا شمار زود گو اور کثیر التصانیف شعرامیں ہوتا ہے۔ ان کے شعری تجربات ان کو اپنے ہم عصر اور ہم عمر شعرا سے ممتاز کرتے ہیں۔ ملتان کے جناب رفیع اسد کا شعری مجموعہ ’’مسافت‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ ملتان کے شیر افگن خان جوہر کا شعری مجموعہ ’’کوئی ہے؟‘‘ منظر عام پر آیا۔

شیر افگن خان جوہر پبلشرز بھی ہیں اور اُردو ادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ پنجاب سے عابد رضا کا شعری مجموعہ ’’روزن سیاہ‘‘ اور ارسلان احمد کا’’ گندم‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ منفرد لب و لہجہ کے شاعر جناب محسن اسرار کا مجموعہ غزل ’’اندیشے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا، جو مواد اور معیار ہر دو لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ محسن اسرار اُردو غزل کا ایک اہم اور قابل ذکر نام ہے جو گوشہ نشینی کے باوجود اپنی پُر تاثیر شاعری کی بنیاد پر پاکستان بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی شاعرہ محترمہ قمر جہاں قمر کی شاعری کا مجموعہ’’ پیاسا دریا ‘‘ کراچی سے اشاعت پذیر ہوا۔ ساہیوال سے خالق آرزو کا شعری مجموعہ ’’عکس شہر آرزو‘‘ نہایت خوب صورت انداز میں شایع ہوا۔ 

اسلام آباد سیجناب اکرم جاذب کا شعری مجموعہ ’’اتصال‘‘ طباعت پذیر ہوا۔غزل کو غزل ہی کے انداز میں کہنے والے شاعر جناب لیاقت علی عاصم کے کلیاتِ غزل ’’یکجان‘‘کا کراچی سے دوسرا ایڈیشن حال ہی میں شائع ہوا جس میں اُن کے آٹھ شعری مجموعوں کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ 

اس سے قبل ’’یکجان‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں سات شعری مجموعے شامل تھے، اب کلیات میں ان کے آخری مجموعے’’میرے کتبے پہ اس کا نام لکھو‘‘بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ تونسہ شریف سے اُستاذ الشعرا جناب ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا شعری مجموعہ ’’شام زمستاں‘‘ زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ 

ابوالبیان ظہور احمد فاتح سات زبانوں میں شاعری کرنے والے پاکستان کے اہم اور قابل ذکر شاعر ہیں، اور ان کی بیسیوں کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں۔ 

کراچی سے سینئر شاعرہ اور صحافت سے تعلق رکھنے والی ادبی شخصیت محترمہ نزہت افتخار کا شعری مجموعہ ’’تشنہ لفظ‘‘ منظر عام پر آیا ہے، جو اُن کی پہچان بنا، یہ مجموعہ اُردو ادب میں ان کے لیے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ 

کراچی ہی سے عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب رفیع الدین راز کی غزلوں کا انتخاب ’’گلزارِ سخن‘‘ شائع ہوا۔ یہ انتخاب جناب جاوید رسول جوہر نے ان کی تیرہ شاعری کی کتب سے عرق کشید کرکے مرتب کیا ہے۔ یہ مجموعی طور پر رفیع الدین راز صاحب کی33 ویں کتاب ہے۔رفیع الدین راز عالمی شہرت اوردہری شہریت کے حامل ہیں۔ 

ساہیوال سے جناب اسلم سحاب ہاشمی کا شعری مجموعہ ’’خواب شجر‘‘زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ کراچی سے جناب فیروز ناطق خسرو کی مسلسل غزل کا مجموعہ’’غزل در غزل‘‘عمدہ طباعت سے آراستہ ہوکر منصہ شہود پر آیا، ان کی درجنوں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور عن قریب ان کی نظموں کا مجموعہ’’پور پور آئینہ ‘‘بھی طباعت کے مراحل سے گزرکر قارئین ادب کے ہاتھوں میں پہنچے والا ہے۔

سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے شاعر جناب اکبر معصوم کے کلیاتِ غزل’’گل معانی‘‘ کا دوسرا ایڈیشن حال ہی میں کراچی سے نہایت خوب صورت سرورق اور عمدہ طباعت لیے شائع ہو گیا ہے جس میں ان کے دو اُردو شعری مجموعے’’اور کہاں تک جانا ہے‘‘،’’بے ساختہ‘‘اور ایک پنجابی مجموعہ ’’نیندر پچھلے پہر دی‘‘شامل ہے۔

پاکستان کی مشہور و معروف اور سینئر شاعرہ محترمہ ریحانہ روحی کا تازہ شعری مجموعہ’’دنیا گزاردی گئی‘‘عمدہ طباعت اور دل کش سرورق کے ساتھ منظر عام پر آیا اس کا سرورق ان کی بیٹی عروج آصف (جو برطانیہ میں مقیم اور ریختہ برطانیہ کی جنرل سکریٹری ہیں) نے بہت خوب صورت ڈیزائن کیا ہے جو قابل دید ہے۔

………٭…٭…٭………

مذ کورہ بالا جائز ہ صرف اُردو شعری مجموعے تک محدود ہے جب کہ اُردو نثری کتب (تحقیق، تنقید، جائزے، تبصرے، کالم، رپورتاژ، مضامین، انشائیے، افسانچے، افسانے، ناول) اِن کے علاوہ ہیں۔ 

اِس تمام اُردو ادب کے کام کی ترویج و اشاعت اور فروغ کے مذ کورہ ہوش رُبا منظر نامے کو دیکھتے ہوئے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب روبہ زوال ہے اور نہ یہ جملہ دہرایا جا سکتا ہے کہ ادب پر جمود طاری ہو گیا ہے اور نہ یہ کہ کتاب کلچر دم توڑ رہا ہے۔