• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں بدلتی سیاسی رت کے یقین محکم کے ساتھ سب پاکستانیوں کو نیا سال 2025ءمبارک۔ اگرچہ وقفے وقفے سے سیاسی عدم استحکام میں مبتلا ہماری7 عشروں کی تاریخ بڑے بڑے قومی حوادث کو لئے ترقیاتی عمل کے ساتھ ساتھ غیر یقینی کی صورت میں عوام الناس کیلئے تو پریشان کن ہی رہی لیکن گزرا سال مطلوب استحکام کے حوالے سے ملکی تاریخ کا بدترین اور مکمل پرآشوب سال رہا۔قومی معیشت کا بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا کہ متنازعہ حکومت نے دسیوں جتن کے بعد بدتر مقروض پاکستان کیلئے عوام مخالف کڑی شرائط پرقرض لے کر جو ڈیفالٹ کو روکا وہ اس کی واحد کامیابی بنی۔2024ءمیں ملک میں اطلاق و نفاذ آئین کے بھرم بھی مجروح ہوئے اور ایک طرح سےپاکستان سرزمین بے آئین بن گیا۔ پس منظر میں ملکی روایتی سیاسی جماعتوں نے گزشتہ 45 سال میں جو اسٹیٹس کو (نظام بد) تشکیل دیا، اس سے ملکی سیاسی و معاشی ارتقاء سست پیچیدہ اور مسخ ہوتا اپنی انتہا پر پہنچ گیا۔ مسخ اس طرح ہوا کہ نہ صرف یہ کہ خلاف آئین نظام بد اپنی جامع شکل میں عوام کیلئے وبال جان بن گیا کیونکہ اولیگارکی (مافیہ راج) کی سیاسی مکاریوں سے دستور کی پتلی گلی سے نکل کر وہ اودھم مچایا کہ ملک کی در پردہ قوتوں نے اپنے طرز عمل سے عالمی وبا میں ہونے والی قابل فہم ہوتی مہنگائی کی آڑ میں رجیم چینج کا جو کھیل کھیلا وہ عوام کیلئے ناقابل ہضم ہونے سے عوام و حکومت کا تعلق ایٹ لارج ختم ہوگیا اور ملکی ریاستی اداروں اور عوام الناس میں رجیم چینج نے ہر دو میں جو ایک بڑی خلیج پیدا کی تھی وہ بڑھتی بڑھتی اسی سال 2024میں اپنی انتہا پر پہنچی۔ یہ انتہا ،اوائل برس سے اختتام تک ایسی ایسی بدترین اور ملک کیلئے سخت تشویشناک انہونیوں کے ہونے پر محیط ہے۔ یقیناً 16 دسمبر 1971ء کے بعد کے باقیماندہ ’’آئینی پاکستان‘‘ میں 2024سے زیادہ اور کوئی پرآشوب سال نہیں، حالانکہ ہر عشرے میں اور ان کے ہر ہر سال میں بہت کچھ غیر آئینی اور عوامی مفادات کے خلاف دو قانونی حکمران سوچ و عمل سے ہوتا رہا۔ غیر آئینی طویل المدت اور ماورائےآئین انتظامی اختیارات کی حامل نگران حکومت، انتخابی مہم میں ہی الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی مطلوب غیر جانبدار حیثیت کی بدترین جانبداری بے نقاب ہونے ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کے گھڑے بیانیے کے مکمل نام نہاد اور جھوٹے ثابت ہونے سے لیکر ملکی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے اسیر قائد کی میدان میں عدم موجودگی پر ہی اکتفا نہ کر سکی اس کے متوازی پی ٹی آئی کو مکمل معتوب رکھتے، اسے انتخابی جلسے جلوسوں سے روکے رکھنے سے لیکر اس کی حلیف جماعتوں کو ہر طر ح کی کھلی چھٹی اورتحریک انصاف کے کارکنوں کے مسلسل ہراساں کرنے تک، پھر بدترین سیاسی کھلواڑ سے لے کر اس سے ’’بلا‘‘چھیننے کے عدالتی فیصلے تک جو کچھ ہوتا رہا، وہ ملکی سیاسی تاریخ میں سیاسی آشوب کی انتہائی غیر جمہوری اور عوام دشمن شکل تھی، یہ تھا 2024ءکا پاکستان میں آغاز، پس منظر میں جنوری کے ہی ماہ میں جیلوں میں لگی ٹرائل کورٹس نے خان اعظم اور ان کی بیگم کے خلاف جس طرح کی فیصلہ سازی کی اس سے قبل بھی عدالتوں نے ڈیڑھ سال سے اپنا غیر پیشہ ورانہ اور سیاسی ہونے کا جو نقشہ پیش کیا اس نے تو معیار انصاف کی عالمی درجہ بندی میں بالکل نیچے ملکی نظام انصاف عدل کو لا پٹکا۔ ججز پریشان ہو کر بڑے بڑے ذمے داران کے خلاف مداخلت کے شاکی ہوگئے اور ہراساں رہے۔

اس سب کا ازالہ جو کچھ اوائل 2024ءمیں اور اس سے قبل رجیم چینج سے غیر آئینی، لاقانونی اور دو قانونی ہوتا آ رہا تھا عوام نے کرنے کی ٹھان لی، ان کا یہ ہی عزم صمیم جو عوام نے خوف و ہراسانی کی عملی غیر سیاسی فضا اور فسطائی ماحول میں قائم کیا، 2024کے بڑے نصیب و اعزاز کے طور پر تاریخ میں محفوظ ہوگیا۔ یعنی کہ 8فروری کے الیکشن کے واضح نکلتے نتائج کو روکنے کے لئے فسطائی حربوں سے جو کچھ کیا گیا، نتائج اس سے بھی زیادہ حکومت مخالف اور عوام دوست عوامی مرضی و منشا سے ہی نہیں، انہوںنے اپنے عزم صمیم سے نکالے اس عزم و عمل سے جس کا درس بابائے قوم نے آنے والی نسلوں کو دیاتھا، اور جو اولین و مقدم آئینی راہ تھی۔ عوام نے پولنگ ڈےپر اب فسطائی ہوگئے ملکی نظام بد پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ مافیا راج کا مقتدر اور غیر آئینی نگرانی سیکشن بھنا کر رہ گیا۔ اس نے عوامی مین ڈیٹ کو کچلنے کے لئے اپنی تمام نگرانی ماورا ئےآئین انتظامی طاقت اور جملہ قوت دائو پر لگا دی۔لیکن دنیا نے نتیجہ یہ ہی مانا کہ عوام نے نظام کو فارغ تو کر دیا لیکن مفلوک و مقہور لیکن پرعزم عوام کے خلاف نظام اپنی دم توڑتی قوت کا زور منطقی انجام کے طور پر لگا کر خود کو مکمل بے نقاب کرنے پر لگ گیا ہے اور ایک عارضی تسلط کی طاقت ابھی باقی ہے۔ اس کھلواڑ کے بعد اولیگارکی ماڈل کی پارلیمانی ’’منتخب‘‘ برائلر حکومت کو منوانے چلانے کے تمام جتن سے ایک بار پھر عوام معتوب ہوتے بھی اصل میں مقتدرہوتے گئے اور ان کی مزاحمت و نظام کے خلاف ملامت کا سلسلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی گیا۔ جو کچھ 24نومبر کو اسلام آباد میں ہوا اس کی جو بھی جو چاہے جیسی تشریح و توضیح کرلے لیکن قوت اخوت عوام نے اپنا حق احتجاج حاصل کرتے اپنے عزم و عمل و قوت و اخوت کا رنگ دکھا کر ڈھلتے فسطائی اور مکمل غیر آئینی ہوگئے برس کو اس کے آخری انجام سے دوچار کرنے کے لئے اپنا نیا رنگ و ڈھنگ دکھا دیا۔ بہت کچھ ہوگیا نادید ہو کر بھی سب کچھ قابل دید رہا۔ مین اسٹریم میڈیا کو اندھے کنویں میں بند کر دیا گیا تو منہ پھٹ و منہ زور لیکن بے نقابی سے حقائق کو آشکار کرنے کی صلاحیت سے مالا مال سوشل میڈیا کے اڑائے گرد و غبار میں بھی منطقی نکلتے نتائج کا بہت کچھ ........... وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین