• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے مجھے ، میں نےبھی دوسروں کی طرح اس خبر پرسرسری سی نظر ڈالی اور آگے بڑھ گیاکہ غزہ پر پچھلے دو دنوں کے دوران شدید فضائی حملوں میں تقریباً 140افراد شہید ہو ئے، جن میں 77افرادجمعرات کے روز شہید ہوئے اور 61افراد کی شہادت جمعہ کے دن ہوئی ۔پھر کچھ خبریں دیکھیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کی حراست دراصل غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کو ’’تباہ‘‘ کرنے کی اسرائیل کی وسیع تر کوششوں میں’’نسل کشی کے ارادے‘‘ کی علامت ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے غزہ میں صحت کی 27تنصیبات پر 136 اسرائیلی حملے ریکارڈ کیے ہیں، جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں اورتباہی بھی۔ مجموعی صورت حال یہ ہے کہ 7اکتوبر 2023سے اب تک کم از کم 45658فلسطینی شہید اور 108583زخمی ہو چکے ہیں۔پھر ایک خبر پر نظر پڑی کہ نوٹنگھم میں علامہ مسعود عالم الازہری انتقال کر گئے۔ ایک دھچکا لگا۔ دکھ ہوا ۔سینے میں دل کے ہونے کی تصدیق ہوئی۔ پھر ذہن ادھر ہی لوٹ گیا۔ میں سوچنے لگاکہ کیا غزہ میں مرنے والے اپنے نہیں غیر تھے۔ پھر یاد آیا کہ غزہ کے متعلق حقیقی رپورٹس مجھے جن دو لوگوں سے ملاکرتی تھیں۔ ان میں ایک یہی اسلامک ہیلپ کےعلامہ مسعود عالم الازہری تھے اور دوسرے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرازق ساجد ہیں۔ یہ دونوں پاکستانی، انتہائی بدترین حالات میں غزہ کے لوگوں تک امدادی سامان پہنچاتے رہے ہیں۔ بے شک علامہ مسعود عالم کی ناگہانی موت کا دکھ اس لمحےکچھ اور بڑھ جاتا ہے جب خیال آتا ہے کہ غزہ کے یتیموں کیلئے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کا وہ نیک عمل کسی طرح بھی المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے امدادی کاموں سےکم نہیں مگر المصطفیٰ ٹرسٹ کی غزہ میں مسلسل موجودگی بہت بڑی بات ہے۔ عبدالرزاق ساجد کےمیدان ِ جنگ میں اگلے مورچوں پر موجود ہونے کے سبب کئی بار انہیں اللہ نے محفوظ رکھا۔ موت ان کے قریب سے گزر گئی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ تو انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب واپسی ممکن نہیں اور انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو فون کر کے کہہ دیا کہ فخر کرنا کہ تمہارا باپ فلسطین کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے متعدد ماہرین نے غزہ میں فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی جارحیت کو انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل نے فلسطینیوں پر ایسے مصائب ڈھائے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔ اسرائیل نے اپنے حملوں میں شہریوں کو نشانہ بنایا، خواتین اور بچوں پرجنسی تشدد اور ان کا قتل عام کیا۔ بے سر و سامانی کی حالت میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے جبراً بے دخل کیا۔ فلسطینی شہریوں کی املاک، مکانات پر مسلسل حملے کیے۔ ادویات، خوراک، پانی اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی فراہمی کو روکا۔ یعنی بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ تمام کارروائیاں اقوام متحدہ کے نزدیک نسل کشی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسرائیل ان اقدامات کے ذریعے فلسطینیوں کو زندگی گزارنے کے حق سے محروم کر رہا ہے۔ اسرائیل کو ان جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانا بین الاقوامی برادری پرفرض ہے۔

ماہرین نے اس بات پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا کہ اسرائیل کو ملنے والے استثنیٰ کی وجہ سے اس کے رہنماؤں کے خلاف عالمی سطح پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس استثنیٰ کا تسلسل ایک خطرناک پیغام دیتا ہے، جس سے اسرائیل اور اس کے رہنماؤں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے کہ وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے رہیں۔ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات پر عالمی عدالت انصاف نے بھی ایک اہم فیصلہ سنایا تھا، جس میں اسرائیل کی کارروائیوں کو ’’نسل کشی کے مترادف‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، اسرائیل نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت کا یہ فیصلہ اسکے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اس فیصلے کے نفاذ کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، جس کی وجہ سے عالمی برادری میں ایک سنگین عدم اعتماد پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کے شواہد عالمی سطح پر موجود ہیں، تاہم عالمی برادری کی خاموشی نے فلسطینی عوام کیلئے امید کی ہر کرن کو مدھم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے انسانی حقوق کے ماہرین کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماہرین اقوام متحدہ کے ترجمان کے طور پر کام نہیں کر رہے۔ اس بیان نے اس بات کو اجاگر کیا کہ عالمی ادارے کو اس سنگین صورتحال پر عملی طور پر کارروائی کرنے میں کس قدر تذبذب اور ہچکچاہٹ ہے۔ یہ حقیقت کہ عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ دونوں نے اسرائیل کی کارروائیوں پر فیصلہ صادر کیا ہے مگر اس پر عمل درآمد کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی گئی فلسطینی عوام کی تکالیف میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے مگر اس میں بھی زیادہ فلسطینیوں کو ہماری خاموشی کا دکھ ہے۔

ہمیں چیخ و پکار آخر سنائی کیوں نہیں دیتی

ہمیں بارود کی بارش دکھائی کیوں نہیں دیتی

یہی لگتا ہے پتھر ہو گئی ہے آخرش دنیا

وہ جو آواز رکھتی تھی ،دہائی کیوں نہیں دیتی

تازہ ترین