• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23 ؍جنوری 1939ءکو سیالکوٹ کے قصبہ کورپور کے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والا اسلم کمال دو جنوری 2024ءکو لاہور کے اقبال ٹاؤن سے رخصت ہوا تو فنون کی دنیا کو بہت سے کمالات دان کر کے گیا۔ صلاحیتوں ،رویے، احساس اور فکر میں عجیب ندرت اور انفرادیت کے حامل شخص کیلئے ’’کمال ‘‘نام ہی جچتا تھا ، تخلیق کاری کے تمام اوصاف سے مالا مال اسلم کمال نے کہانیاں بْنیں، افسانے لکھے، شاعری کی مگر مصوری سب پر حاوی ہوگئی ، انکی طرز تحریر کی خوبصورتی ہر لفظ سےجھلکتی ہے۔ منفرد ادبی پرچے الحمرا میں شائع ہونے والے ان کے ادبی مضامین اتنی سحر انگیز دلکشی سے بھرپور ہوتے تھے کہ پڑھ کر لطف محسوس ہوتا تھا، انسان وہی عظیم ہوتا ہے جو اپنی دھرتی کی شان بڑھانے سے سفر آغاز کرتا ہے ،اسلم کمال اپنے علاقے سیالکوٹ کے عالمی شہرت یافتہ شاعر علامہ اقبال سے شدید محبت اور عقیدت رکھتے تھے ، ان کے فکر و فلسفہ کو عام کرنے اور فن کی صورت میں بیان کرنےکیلئے انہوں نے اقبال کی شاعری کو مصور کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ ایک بہت ہی منفرد سلسلہ تھا ، اقبال کے پیغام کی تفہیم کو جس طرح انہوں نے تصویر کی شکل میں نمایاں کیا وہ اسلم کمال کا عظیم کارنامہ کہا جا سکتا ہے ،بعد ازاں انہوں نے غالب، فیض، صوفی تبسم سمیت دیگر بڑے شعراکے کلام کو مصور کرنے کی تخلیقی کاوش جاری رکھی ، وہ صلاحیت جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلم کمال کا نام بڑے احترام سے لکھا جاتا ہے ، وہ خط کمال کی ایجاد ہے، ایک ایسا خط جو اسلم کمال کے ساتھ پاکستان کو بھی اعزاز بخشتا ہے، انہوں نے خط کوفی کو خوبصورت رنگوں ،گنبدوں اور محرابوں سے مزین کر کے ایک انتہائی خوبصورت ، منفرد اور جاذب نظر رسم الخط، خط ِکمال تخلیق کیا۔فنون کی دنیا نے خطِ کمال کا بڑی محبت سے استقبال کیا، دنیا بھر میں ان کی بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش ہوئی ، اہم سرکاری عمارتوں اور سفارت خانوں میں آویزاں کیا گیا، انہیں سراہا گیا ،حکومت پاکستان نے انہیں کئی اعزازات سے نوازا،فنکاروں ، تخلیق کاروں اور فن شناسوں کی محبت و عقیدت نےان کی توانائیوں کو دوبالا کیا۔میں ان کے فن کی ہمیشہ سے قدردان تھی مگر ان کی شخصیت سے شناسائی پلاک میں ملازمت کے دوران ہوئی۔ صدیوں میں کوئی ایک مصور اسلم کمال بنتا ہے لیکن اسلم کمال کو مل کر احساس ہوا کہ وہ شائستگی اخلاص اور زندہ دلی میں بھی اپنی ،مثال آپ تھے۔کسی محفل میں ملاقات ہوئی تو انہیں پلاک مدعو کیا۔چند دنوں بعد وہ تشریف لائے اور تفصیل سے پورے ادارے کا دورہ کیا۔پھر تو ہمارے اخلاص اور عقیدت سے ایسے بندھے کہ تقریباً روز ہی پلاک آنے لگے ان کازیادہ تر کام اردو شاعروں کے حوالے سے تھا جب پلاک سے جڑت کے بعد پنجابی کے عظیم صوفی شاعروں کی طرف راغب ہوئے۔ وہ 2013 سے تقریباً روزانہ یا ہفتے میں تین بار تشریف لاتے ، کچھ دیر ہمارے ساتھ بیٹھتے ، چائے پیتے اور پھر میوزیم میں کام کرنے لگتے۔ 2019میں’’پنجاب کا تخلیقی ماضی‘‘ کے عنوان سے 8 ضرب 12 کا ایک شاندار میورل تخلیق کر کے پلاک اور پنجابی زبان کا شملہ بلند کیا اور فن کی دنیا میں حیرت انگیز دلکشی بکھیری۔اس میورل سے اچھی یادیں وابستہ ہیں۔ لیکن افتتاح کے بعد کچھ دن جس آزمائش سے گزرنا پڑا وہ سوچ کر اب بھی دل دکھتا ہے۔ ہوا یوں کہ اس میورل کا افتتاح اس وقت کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب نے کیا، افتتاح کے وقت اسلم کمال نے پنجاب کےصوفی شاعروں کے حوالے سے اپنے کام کی نوعیت سے آگاہ کیا۔اگلے دن وزیراعلیٰ صاحب کے آفس کی طرف سے فون آگیا کہ یہ میورل پیک کر کے بھیجا جائے۔ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو تحفہ دینا ہے یہ سلسلہ کئی دن چلتا رہا ،ہم نے بہت سمجھایا،منت ترلے کیے کہ اتنے برسوں کی محنت والا کام ادارے کی ملکیت ہے، پھر اگر اسے دیوار سے اتارا گیا تو یہ چونکہ کئی بورڈ جوڑ کر بنایا گیا ہے ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ جوڑنے سے حرف آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ اس دوران اردو کانفرنس میں شرکت کیلئے میں کراچی چلی گئی۔ شام کو ڈائریکٹر کی طرف سے فون آیا کہ وزیراعلیٰ صاحب بہت ناراض ہیں کیونکہ وہ خان صاحب کو افتتاح والے دن ہی بتا چکے تھے کہ لاہور میں صوفی شاعروں پر عظیم کام ہوا ہے وہ میں تحفے کے طور پر آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اسلئے اسلام آباد آفس والوں کے بار بار پوچھنے پر زلفی صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ میورل کو یہاں سے اتروا کر اسلام آباد بھیجیں۔وہ ساری رات میں آنسوؤں سے روتی رہی اسلئے کہ میرے پاس وہ حرف نہیں تھے کہ جو میں اس میورل کے جانے کے بعد اسلم کمال صاحب کے سامنے معذرت کیلئے استعمال کر سکتی۔تاہم رب کا کرنا ایسا ہوا کہ اس میورل کو اتارنے کی کوشش میں یہ واضح ہو گیا کہ اگر اس کو الگ الگ کیا جائے گا تو اس کی تمام خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔اس کے بعد پنجابی صوفی شاعری آ ن کینوس بنانے کا آغاز کیا۔9 پینٹنگز بنائی جانی تھیں ، مگر سلطان باہو ،بلھے شاہ ،میاں محمد بخش پر تین پینٹنگز بنانے کے بعد وہ پہلا ادھورا منصوبہ چھوڑ کر اگلے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوگئے۔

تازہ ترین