• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فری اسپیچ پر پابندی کا قائل نہیں، معاشرہ جمود کا شکار ہوجائیگا، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق نے اپنے پینل کے سامنے سوال رکھا کہ پاکستان کیسے سوشل میڈیا کے ضوابط اور آزادی اظہار کے درمیان توازن قائم کرسکتا ہے؟۔

تجزیہ کارعمر چیمہ نےکہا کہ میں فری اسپیچ پر پابندی کی قائل نہیں ہوں میرے کام کی بنیاد ہی اس پر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو معاشرہ جمود کا شکار ہوجائے۔

تجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا کہ یہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے چیلنج ہے کہ کیسے آپ آزادی اظہار رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرسکیں۔

تجزیہ کار ریما عمر نے کہا کہ فریڈم آف ایکسپریشن یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کے پاس اظہار رائے کی آزادی ہوگی اور ہر فورم پر اظہار کرنے کی آزادی رکھتا ہے لیکن اس میں حدود متعین ہیں اور اس میں ہتک عزت کے قوانین بھی آجاتے ہیں۔

 تجزیہ کار فخر درانی نے کہا کہ فیک نیوز ،مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ 

تجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا کہ یہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے چیلنج ہے کہ کیسے آپ آزادی اظہار رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرسکیں لیکن اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے اور جب سے ایلون مسک نے ٹوئٹر کو ایکس میں چینج کیا ہے اس کے بعد یہ معاملہ اور آگے بڑھ گئے ہیں۔جس طرح مختلف ممالک کے الیکشن میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

سوشل میڈیا کے جتنے بھی پلیٹ فارمز ہیں وہاں جو ایلگورتھم وہ اتنا مضبوط ہے کہ جو مواد آپ ایک دفعہ دیکھ لیں گے اسی طرح کا مواد آپ کو بار بار دکھایا جائے گا۔ 

سوشل میڈیا پر ایک الزام یہ بھی لگتا رہا ہے کہ وہ پوزیشن لے کر کوئی نہ کوئی ایجنڈا ٹو کرتے ہیں یہ الزام کہ ڈس انفارمیشن پھیلاتا ہے یہ سب کسی حد تک درست بھی ہے ۔

 انفارمیشن کا فلو بہت زیادہ ہے لیکن کون سی انفارمیشن درست ہے اس کا پتہ کرنا بڑا چیلنج ہے۔ہمارے ہاں یہ بھی مسئلہ ہے کہ جب آپ کسی چیز کو ریگولیٹ کرنے جاتے ہیں تو اس کا غلط استعمال اور زیادہ ہوجاتا ہے پھر آپ اپنے مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے ہاں بات صرف فیک نیوز کو روکنے کی حد تک محدود نہیں رہے رہتی بلکہ ہم سیاسی بیانیہ کو بھی کنٹرول کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید