تیز ترین اطلاع کے دَور میں کچھ سماج ایسے بھی ہیں جہاں تیز ترین اطلاع اتر تو جاتی ہے مگر پھر خود ہی پریشان ہوجاتی ہے کہ وہ بہت اکیلی محسوس کرتی ہے۔ انفرا اسٹرکچر ساتھ دینے کو موجود نہیں ہے۔ سسٹم اسے قبول نہیں کرتا۔ واپس وہ جا نہیں سکتی۔ فائل بھاری ہوتی رہتی ہے۔
یہی حال اکیسویں صدی کا ہے۔ وہ ایک ایسی نئی نویلی دلہن کی طرح اپنا شادی کا جوڑا سنبھالتی، ساس نندوں کی ٹک ٹاک، ریلز کے حملے برداشت کرتی ہے۔ دلہا کے دھول دھپے سہتی ہے۔ کہیں سے اس پر اٹھارہویں صدی اپنے جھاڑ جھنکار سمیت جھپٹ پڑتی ہے۔ کہیں سے انیسویں صدی خواب گاہ کو پانی پت کا میدان بنادیتی ہے۔سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان تو ڈالر کماکر خوش ہیں کہ ان کو قدرت نے چھپر پھاڑ کر عنایات کی ہیں۔ گھر پکے بنالیے ہیں۔ شادیاں کروارہے ہیں، ڈالر پونڈ لٹارہے ہیں۔
باہر نکل کر دیکھتے ہیں تو وڈیرے کی اوطاق اسی طرح جمی ہوئی ہے۔ ہاریوں اور انکی اولادوں کو دہلیز سے بہت دور اپنی چپلیں چھوڑ کر کئی سرحدیں عبور کرکے وڈیرے کے سامنے ننگے سر اور ننگے پائوں ہی کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ وڈیرے اور اس کی موالیوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونان کی آنکھوں میں رعونت اور مونچھوں میں تکبر ختم نہیں کر سکا۔ سردار، خان، چوہدری اب تک اٹھارہویں صدی کی بکل مارے انٹرنیٹ سے واقف نوجوانوں کو اسی طرح گالیاں بک رہے ہیں۔
میں جو 1960کی دہائی سے اپنی آواز بلند کررہا ہوں۔ ہر دہائی میں نئے نئے آلات شان و شوکت سے آتا دیکھ رہا ہوں۔ اب ہماری اولادیں کہہ رہی ہیں کہ یہ 5جی نیٹ ورک، سیٹلائٹ کمیونیکیشن، فائبر آپٹکس کیبل، موبائل نیٹ ورکس، انٹرنیٹ پروٹوکول کی دنیا ہے۔ خبر، تصویر، سیکنڈوں میں ہزاروں میل کا سفر طے کر رہی ہے۔ خریداری کیلئے دکانوں پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی پسند کے کھانےکیلئے کچن میں جانا ضروری نہیں ہے، ہر چیز ایک کال کی ایک پیغام کی مار ہے۔ چند لمحوں میں گھر کی یا فون کی گھنٹی بجے گی۔ باہر ایک آپ جیسا انسان ہی آپ کا آرڈر لیے موجود ہو گا، نقد ادائیگی کریں، جاز کیش دے دیں، فون پر فون ماریں، قیمت چکادی جاتی ہے۔ اگر کارڈ سے پیسے دینے ہیں تو وہ مشین بھی ساتھ لے آتا ہے۔ اطلاع بھی اب اتنی ہی سرعت سے ملکوں ملکوں سفر کرتی پہنچ رہی ہے۔ مگر اکثریت اب بھی ایک روٹی کیلئے کئی کئی گھروں میں جھاڑ پونچھ کر رہی ہے۔
یہ ساری ایجادات ان ملکوں کی ہیں جو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا ایک سسٹم بنا چکے ہیں۔ گلی کوچوں میں چلنے پھرنے کی آسانیاں، گھروں کی حفاظت، موسموں کی سختیاں سہنے کے انتظامات، بچوں کی پرورش، تعلیم، تربیت کے قوانین بنا چکے ہیں۔ اپنے مفادات تشکیل دے چکے ہیں۔ ان ملکوں میں پیدا ہونے والا بچہ، اپنے آرمی چیف، نیول چیف، فضائی چیف کا نام جانتا ہو یا نہیں۔ لیکن وہ اپنے ملک کے مفادات سے واقف ہے۔ اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔ کسی سوال کیلئے جواب کہاں سے ملتا ہے، اسے ازبر ہے۔ اس لیے جب زندگی کے کسی شعبے یا گوشے کیلئے کوئی نئی ایجاد ظہور میں آتی ہے تو ان کا جیون اور سہل ہوجاتا ہے۔ ان کے ہاں بازاروں، شاہراہوں پر کیمرے جو کچھ دکھاتے ہیں وہ صرف کسی بڑی واردات کے بعد نہیں دیکھے جاتے بلکہ ہر لحظہ ان کا مشاہدہ ہوتا ہے اور نئی تحقیق کہ مزید آسانی کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ وہاں قانون کے نفاذ، حقوق کے حصول اور ایجادات کے استعمال میں امیر غریب سب یکساں ہیں۔ تیز ترین اطلاع کی دوڑ میں پیچھے کون رہ رہا ہے، کونسی قومیں، کونسے علاقے، مصنوعی ذہانت کہاں زیادہ استعمال ہو سکتی ہے۔ کتابیں، اخبارات، چینل، یو ٹیوب سب یہی کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے فوری جوابات بھی وہیں زیادہ کارآمد ہو رہے ہیں جہاں حقیقی ذہانت سے کام لیا جاتا ہے۔ جہاں اپنا ذہن استعمال کرنے والوں پر پابندیاں ہوں، جہاں اکثر سیاسی جماعتوں میں، دفتروں میں یونیورسٹیوں میں اپنے دماغ کا استعمال کرنے والوں کو نشان زد کیا جاتا ہو، وہاں مصنوعی ذہانت بھی بے بس ہو جاتی ہے۔ ہم جس خطّے میں رہتے ہیں یہ تو آج سے پانچ ہزار، آٹھ ہزار، دس ہزار سال پہلے دنیا سے بہت آگے تھا۔ پھر غیر ملکی سامراجیوں نے آکر یہاں کے زرخیز ذہنوں کو غلامی کا لالچ دے کر کمزور کر دیا۔ 1947ءسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر نئی ایجاد دنیا سے کافی دیر بعد استعمال ہوتی ہے۔ اب بھی بحری جہاز کنٹینروں میں باہر کے استعمال شدہ، مسترد شدہ کپڑے جوتے کمپیوٹر لے کر آ رہے ہیں، ہمارے دفاعی آلات بھی سیکنڈ ہینڈ ہوتے ہیں، ہمارے حکمران طبقوں کی سوچ بھی سیکنڈ ہینڈ ہے۔ 1960 ءکی دہائی کی آمرانہ سرکار ہی ہماری اب بھی آئیڈیل ہے۔
جدید ترین سوشل میڈیا پر بھی ہم 60اور 70کی دہائی کی نعرے بازی کررہے ہیں۔ افراد کو ڈالر مل رہے ہیں، لیکن اقوام کو خوشحالی نہیں مل رہی۔ ہزاروں یو ٹیوب چینل ہیں، لاکھوں وی لاگ۔ انقلاب کے دھماکے، مگر پسماندہ ملکوں میں انفرا اسٹرکچر وہی محدود ہے۔ ان کی مالی استطاعت کمزور، ڈیجیٹل خواندگی کم تر، جغرافیائی رکاوٹیں اسی طرح۔ قوموں کے قواعد و ضوابط وہی 1935والے، ریگولیٹری فریم ورک وہی، قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ بشارت دی جاتی ہے، نئے قوانین بنانے کی۔
کبھی ان معاشروں کو ترقی پذیر کہہ دیا جاتا ہے، کبھی پسماندہ۔ حکمران طبقوں کا وہی مزاج ہے، وہی ذہنیت، پہلے انہیں بورژوا کا لقب دیا جاتا تھا۔ اب اشرافیہ کہہ کر شرف دیا جا رہا ہے۔ جن قوموں نے اپنے سسٹم قائم کیے، انفرا اسٹرکچر، شاہراہیں، ایئر پورٹیں، بندر گاہیں مکمل کر لیں، اپنی درآمدات برآمدات کے نظام بہتر کر لیے۔ وہاں تیز ترین اطلاع نے تبدیلی پیدا کی ہے۔ ریاست کے مالک عوام ہیں۔ ان کی حاکمیت کو جمہوریت کے ذریعے بالادست کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا بھی وہاں تغیر لاتا ہے۔ جہاں لوگ اپنے آپ کو بدلنا چاہتے ہوں۔ ہمارے ہاں تبدیلی زمانے کی رفتار کے ساتھ نہیں رہی ہے۔ پرنٹ میڈیا مکمل طور پر خود مختار نہیں ہوا تھا۔ سماج میں ایک استحکام تھا، مگر خواندگی کی کمی کے باعث پرنٹ کا پیغام سب تک نہیں پہنچتا تھا۔ ذہن مستحکم نہیں ہوتے تھے کہ میڈیا کے آلات بدلنے لگے۔ اب میڈیا تو تیز ترین ہے مگر ریاست، ریاست کے لوگ، جاگیرداری شکنجوں، سرمایہ داری شعبدہ بازیوں میں اسی طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ اتھارٹی ختم ہو رہی ہے مگر سہولتیں پوری طرح نہیں مل رہی ہیں۔ اٹھارہویں صدی ہمارے قلعوں، سیکرٹریٹوں، دفتروں، اسمبلیوں میں اپنے موروثی غلبے کے ساتھ موجود ہے۔ سوشل میڈیا کا کھڑاک تو ہے۔ لیکن اس سے ملحقہ تہذیب اور تمدن نہیں ہے۔ سوشل میڈیا جنوبی ایشیا میں اکیسویں صدی نہیں لا سکا۔ پرنٹ والا ادراک اور تدبر اب بھی ناگزیر ہے۔