بریڈفورڈ (محمد رجاسب مغل ) برٹش پاکستانی کمیونٹی نے ایلون مسک اور نائجل فراج کے الزامات کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہو کہا کہ برطانیہ میں بچوں کے جنسی استحصال کے گرومنگ گینگز کا مسئلہ ایک سنگین اور حساس معاملہ ہے۔ انفرادی جرائم کو پوری کمیونٹی سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہیں چند افراد کے قابل مذمت فعل کو 17لاکھ برطانوی پاکستانیوں کے ساتھ ملانا درست نہیں برطانوی حکومت کی نومبر 2023کی رپورٹ کے مطابق، جنسی استحصال کے جرائم میں سزا یافتہ افراد میں 83فیصد سفید فام اور 7فیصد ایشیائی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ کسی ایک کمیونٹی تک محدود نہیں معلوم رہے کہ ایلون مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر اور دیگر سیاستدانوں کو گرومنگ گینگز کے معاملے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور نئی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بیانات کو برطانوی عوام کی اکثریت نے ملکی سیاست میں منفی مداخلت کے طور پر دیکھا ہے۔ نائجل فراج، ریفارم یوکے کے رہنما نے ایلون مسک کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ برطانوی حکومت اور اپوزیشن دونوں نے گرومنگ گینگز کے مسئلے کی مذمت کی ہے۔ وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے کہا ہےکہ جھوٹ پھیلانے والے متاثرین سے زیادہ خود میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی نے بھی نئی قومی تحقیقات کا مطالبہ کیا تاہم حکومت نے موجودہ رپورٹس کو کافی قرار دیا ہے۔ کمیونٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کمیونٹی میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی بڑھائی جائے اور والدین کو بچوں کی حفاظت کے طریقوں سے روشناس کرایا جائے۔مشکوک سرگرمیوں کی فوری اطلاع دی جائے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کیا جائے۔کمیونٹی کے اندر مثبت رول ماڈلز کو سامنے لایا جائے جو نوجوانوں کے لیے مثال بن سکیں مختلف کمیونٹیز کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دیا جائے تاکہ غلط فہمیوں اور تعصبات کا خاتمہ ہو یہ اقدامات نہ صرف کمیونٹی کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی مضبوط کریں گے۔ بریڈفورڈ میں مختلف طبقہ فکر کے افراد نے جنگ لندن کے ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سابق لارڈ میئر آف بریڈفورڈ محمد عجیب نے کہا ہے کہ ایلون مسک کی جانب سے وزیراعظم کیئر اسٹارمر پر الزام لگانا کہ وہ اولڈہم اور برطانیہ کے چند دیگر شہروں میں نوجوان لڑکیوں کے گرومنگ کے حساس اور متنازع مسئلے میں ملوث رہے ہیں،جب اسٹارمر ڈائریکٹر آف پبلک پروسیکیوشن سروسز تھے مسک کی یہ حرکت بظاہر ایک منصوبہ بند اور منظم کوشش معلوم ہوتی ہے، جس میں ان کے اور برطانیہ میں ان کے ہم خیال افراد کے درمیان گٹھ جوڑ شامل ہے، تاکہ لیبر حکومت اور برطانوی مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا سکے۔ اس کا مقصد برطانوی عوام کو لیبر پارٹی سے بدظن کرنا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت، دشمنی اور تعصب کو بڑھانا ہے۔حالانکہ گرومنگ کے مسئلے پر برطانیہ میں عدالتوں نے کافی بحث کی ہے، اور مجرموں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دی گئی ہیں، لیکن اس حساس مسئلے کو دوبارہ چھیڑنا ایک دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے تاکہ لیبر پارٹی کو دباؤ میں لایا جا سکے اور مسلم اقلیت کے خلاف نفرت کو بڑھایا جا سکے، جس کا فائدہ انتخابی کامیابی کے لیے اٹھایا جا سکے لہذا ہمیں اپنی بیشتر وقت دفاعی پوزیشن میں رہنے کے بجائے، اپنی اصلاح اور درستگی کی حقیقی کوششیں کربنا ہوں گی اس کے لیے مذہبی ادارے جیسے کونسل برائے مساجد دیگر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کمیونٹی میں آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے بحیثیت مسلمان کوئی اس گھناؤنی حرکت کی حمایت نہیں کرتا نہ ہی اسے اچھا سمجھتا ہے یہ ہر کمیونٹی کا مشترکہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کونسلر صبیحہ خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک سنگین اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک یہ زیادہ تر صنفی مسئلہ ہے کیونکہ تمام کمیونٹیز اور طبقوں میں زیادہ تر مرد اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں، بالکل گھریلو تشدد کی طرح۔ زیادہ تر متاثرہ خواتین اور بچیاں ہوتی ہیں۔ بطور مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی کمیونٹیز میں اس مسئلے کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس بات کی تربیت دینی چاہیے کہ وہ اسلام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں، جو اس طرح کے رویے کو سختی سے منع کرتا ہے۔ ہماری قیادت، چاہے وہ مساجد میں ہو یا دیگر شعبوں میں، کو اس موضوع پر حساس انداز میں بات کرنی چاہیے تاکہ تمام کمیونٹیز میں ملوث افراد کی مذمت کی جا سکے اور اس مسئلے کے بارے میں شعور اور آگاہی پیدا کی جا سکے۔ہم معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں ہر سطح پر اس میں شامل ہونا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوان خود اعتماد ہوں اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے علم رکھتے ہوں۔ ہمیں سب کو مل کر اپنے معاشرے میں کمزور افراد، خاص طور پر بچوں، کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔معروف سماجی رہنما قاضی اشتیاق احمد نے تفصیلی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس مسئلے کی شدت، اس کے پھیلاؤ اور اس کے بنیادی اسباب کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے ہوم آفس کی تحقیقات کے نتائج نے اشارہ دیا تھا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات زیادہ تر سفید فام کمیونٹی میں پائے جاتے ہیں، جبکہ سیاہ فام اور ایشیائی کمیونٹیز میں ایسے کیسز کی شرح نسبتاً کم ہے ۔ہوم آفس کی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور ثقافتی یا نسلی پس منظر کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا گیا حقیقت میں، گرومنگ میں ملوث افراد مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ کچھ تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سیاہ فام اور ایشیائی افراد کی نمائندگی زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن ہوم آفس کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق گروپ کی صورت میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث افراد زیادہ تر سفید فام ہوتے ہیں۔ کوئی بھی واحد کمیونٹی یا ثقافت ایسے جرائم کے لیے منفرد طور پر ذمہ دار نہیں ہے۔مسلمانوں نے، دیگر لوگوں کی طرح، ان گھناؤنے اعمال کی مذمت کی ہے اور مجرموں کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ کسی پوری کمیونٹی کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ صرف حقائق کے خلاف ہے بلکہ سماجی طور پر بھی نقصان دہ ہے۔ایلون مسک کا برطانوی مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنانا اور نفرت کو ہوا دینا ناقابلِ قبول ہے۔ کوئی بھی ارب پتی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی انہیں معاشرے میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ہمیں مل کر گرومنگ جیسے گھناؤنے جرائم کے ساتھ ساتھ تعصب اور نفرت کے محرکات کی بھی مذمت کرنا چا ہئے۔سابق پارلیمانی امیدوار افتخار احمد نے اسے ایک پیچیدہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان حقائق کو تسلیم کرنا ہو گا کہ بہت بڑی تعداد میں کم عمر سفید فام لڑکیوں کو پاکستان نژاد مردوں کے گروہوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے مسلم، پاکستانی آبادی برطانیہ کی کل آبادی کا تقریباً تین سے چار فیصد ہے لیکن یہ افراد بچوں کے استحصال کے تقریباً 14 فیصد واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں صرف رادھرم میں 1400 لڑکیوں کو گروم کیا گیا ان میں سے بہت سے مجرم اب جیل میں ہیں کنزرویٹو حکومت کے دور میں اس معاملے پر رپورٹ شائع کی گئی تھی، جس میں 20 سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ تاہم ان سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا شبہ ہے کہ پولیس کے سینئر افسران کو اس معاملے میں شامل ہونے کے باوجود تحقیقات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔نیشنل انکوائری کے مطالبے کا مقصد ان خالی جگہوں کو پُر کرنا ہے۔میری رائے میں ان مسائل کی نشاندہی کرنے اور انہیں حل کرنے کے لیے ایک انکوائری ضروری ہے پاکستانی کمیونٹی کو ان مجرموں سے خود کو الگ کر لینا چاہیے جنہوں نے یہ جرائم کیے ہیں، ورنہ پوری کمیونٹی اس مسئلے کی وجہ سے بدنام ہو سکتی ہے۔ اکثریتی لوگ اس بدنامی کے مستحق نہیں ہیں زیادہ تر مجرم سفید فام مرد ہیں، لیکن اس کے باوجود توجہ کا مرکز پاکستانی افراد کو بنایا جا رہا ہے، جو کہ نسل پرستی پر مبنی نفرت کو فروغ دیتا ہے یہ انکوائری مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ رویے کو ختم کرنے میں مدد دے گی۔کنزرویٹو پارٹی کے ہیری بوٹا نے گرومنگ گینگز کے معاملے پر ایک اور انکوائری کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کیونکہ صرف ایک مکمل اور تفصیلی انکوائری کے ذریعے ہی ہم حقیقت جان سکیں گے حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ زیادہ تر سفید فام کمیونٹی سے منسلک ہے۔اگرچہ یہ بالکل قابل مذمت ہے، لیکن ایشیائی اس مسئلے کا بہت چھوٹا ساحصہ ہیں اگر انکوائری کھلے اور منصفانہ طریقے سے کی گئی تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آئے گی۔گرین پارٹی کے رہنما خالد محمود کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے اراکین کے طور پر، ہم بچوں کے جنسی استحصال اور گرومنگ جیسے گھناؤنے جرائم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ یہ اعمال قابلِ نفرت ہیں اور کسی بھی معاشرے میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ ہم ان جرائم کے خلاف جاری آزادانہ تحقیقات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد اور منصفانہ کارروائی کریں تاکہ مجرموں کو ان کے پس منظر سے قطع نظر انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے تا ہم اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ انفرادی جرائم کو کسی پوری کمیونٹی کو بدنام کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں، مقامی حکام، اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مل کر ان جرائم کو جڑ سے خاتمے کے لیے پُر عزم ہیں ۔لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک نسل، مذہب یا کمیونٹی کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے، جس کے حل کے لیے ہم سب کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ تمام کمیونٹیز، بشمول مسلم کمیونٹی، کو اس موقع کو اصلاح، اتحاد، اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔