پاکستان کے ٹیکس نظام کے ذریعے آج 77 سال سے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے کیونکہ یہ طبقہ ریاستی اداروں کیلئے سب سے آسان ہدف ہے۔حالانکہ اس سلسلے میں ایف بی آر کے چیئر مین راشد محمودلنگڑیال نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ٹاپ 5فیصد اشرافیہ 16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کر رہی ہے۔دوسری طرف ایف بی آر نے خود بھی ٹیکس نظام کو بہت کنفیوژن کا شکار بنا دیا ہے۔ پہلے ٹیکس فائلر اور نان فائلر کی اصطلاح رائج کی گئی، پھر اس میں لیٹ فائلر اوراب اس میں اہل فائلر اور نان اہل فائلر کی اصطلا حات کا اضافہ کیا گیا ہے۔پہلے نان فائلرز کو بجلی اور ٹیلی فون بند کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور اب نئے ترمیمی بل میں بڑی گاڑیاں اور جائیداد خریدنے، بینک اکاؤنٹس کھولنے، حصص خریدنے پر پابندی کے ساتھ ساتھ انکےکاروبار سیل کرنے کی بھی شق شامل کی گئی ہے۔جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا کوئی مضبوط نظام رائج نہیں ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق ٹیکس وصولی کے موجودہ نظام میں سب سے بڑی خرابی غریبوں پر بالواسطہ ٹیکس کی بھرمار ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ٹیکس وصولی کا ستر فیصد حصہ بالواسطہ طور پر جمع ہو رہا ہے جبکہ باقی 30فیصدبجٹ تنخواہوں سے کی جانیوالی کٹوتیوں سے پورا کیا جا رہاہے۔اسکے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ براہ راست ٹیکس ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ذاتی آمدنی پر ٹیکس مجموعی ٹیکس آمدنی کا اوسط 23.4فیصد ہے جبکہ ایشیا پیسیفک ممالک میں اسکی شرح تقریباً 16فیصد اور پاکستان میں بہت ہی کم ہے۔حکومتی سطح پر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نئے ترمیمی بل سے اگلے سال ٹیکس وصولی میں 7.1کھرب روپے کے خسارے کوکم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ ایف بی آر کے ایک اعلا ن کے مطابق 1لاکھ 69ہزار با اثر لوگوں کو نوٹس جاری کیے ہیں تاکہ انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے۔ایف بی آر کے چیئر مین کے مطابق ٹیکس اصلاحات کے باوجود 27لاکھ لوگ آج بھی ایسے ہیں جو ٹیکس نیٹ سےباہر ہیں۔ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر معاشیات، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی جس شرح کو موجودہ 9.2فیصد سے بڑھا کر 13فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں، وہ نامکمل دکھائی دے رہا ہے۔پاکستا ن کا زرعی شعبہ جوجی ڈی پی کا 27فیصد حصہ فراہم کرتا ہے اور پاکستان کی چالیس فیصد لیبر فورس اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ لیکن اس شعبے میں اصل ٹیکس نادہندگان بڑے جاگیردار ہیں جو ٹیکس چوری کرتے ہیں اورانکے سیاسی اثرو رسوخ کی وجہ سے حکومت اور ایف بی آر ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔لیکن پنجاب میں زراعت سے ٹیکس کی وصولی بڑھانے کیلئے آج کل پٹواری اور محکمہ ٹیکس کے اہلکار گاؤں گاؤں جا کر چھوٹے کاشتکار وں سے انکے آمدنی کے ذرائع کی جانچ پڑتال کرکے ان کو پریشان کر رہے ہیں۔آج دنیا بھر میں زرعی ٹیکس کے حوالے سے جامع قوانین اور ان پر موثر عمل در آمد کا نظام موجود ہے جیسا کہ نیوزی لینڈ نے اپنی زرعی آمدنی کو کامیابی سے ٹیکس نیٹ میں شامل کر لیا ہے یوں تمام پیداواری قوتیں منصفانہ بنیادوں پرمعیشت کا حصہ بن گئی ہیں۔دنیا بھر میں ریاستوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ اشرافیہ پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگا کر اپنا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں۔آج پاکستان کا موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 9.2فیصد ہے جو عالمی اوسط سے بہت کم ہے جبکہ جاپان میں یہ تناسب 34.1 فیصد، جنوبی کوریا میں 32فیصد اور منگولیا میں 24.6 فیصد ہے۔ایشیائی معیشتوں کے تناظر میں یہ فرق پاکستان کے ٹیکس نظام کی خستہ حالی اورحکمران اشرافیہ کی غیر ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔ڈنمارک اور سویڈن میں یہ تناسب 40فیصد سے زائد ہے۔وہ ممالک جن میں یہ تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہ اپنے ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ آمدنی پسے ہوئے طبقات کو تعلیم، صحت اور معیار زندگی بہتر کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ناروے اور فن لینڈاپنے ٹیکس ریونیو کا بڑا حصہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں لگاتے ہیں جسکے نتیجے میں یہ ریاستیں دنیا میں بہترین فلاحی ریاستیں بن کر ابھری ہیں۔ آج پاکستان میں ٹیکس ریونیو کو بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ،ایف بی آر کے شعبے کی نا اہلی، بدعنوانی اورایک وسیع ڈیٹا بیس کی غیر موجودگی ہے۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ معیشتیں ٹیکنالوجی پر مبنی نظام کو اپنا رہی ہیں جس میں الیکٹرونک رسید کاری اور ڈیٹا کا ایک منظم کمپیوٹرائز نظام شامل ہیں۔ہمیں ایسٹونیا کے ای ٹیکس نظام سے استفادہ کرنا چاہیے جس نے ٹیکس کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں شہریوں کی فلاح کیلئے حکومت اپنی آمدنی کا صرف 7.6فیصد مختص کرتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب 23.7فیصد تک ہے جس سے یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک غریب آدمی جو ایک ماچس کے ڈبیا پر بھی ٹیکس دیتا ہے لیکن اسکے بدلے پاکستانی ریاست اسکے لیے تحفظ، تعلیم، علاج اور گھر مہیا کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہے۔آج عوام کی ریاست سے بیگانگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اگر فوری طور پر غریب طبقے کوٹیکسوں کی بوچھاڑ سے آزاد نہ کرایا گیا،تو پاکستان کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے تمام خواب ادھورے رہ جائینگے۔اس کیلئےضروری ہے کہ پاکستان کواپنے ٹیکس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی جس میں سب سے پہلے جاگیرداروں، قبائلی سرداروں،سجادہ نشینوں، اسٹاک بروکرزاور ہاؤ سنگ بلڈرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ ایف بی آرکے نظام کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا اورٹیکس دینے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔